شَہْد کا استِعمال سُنَّت ہے:|شَہْد پینے کا طریقہ|شَہْد کی مکھی کو نہیں مارنا چاہیے۔
شَہْد کا استِعمال سُنَّت ہے ۔ ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم اسے پسند فرماتے تھے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعْجِبُہُ الْحَلْوَآءُ وَالْعَسَلُ یعنی نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم میٹھی چیز اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ (بخاری ، کتاب الطب ، باب الدواء بالعسل ، ۴ / ۱۷، حدیث : ۵۶۸۲ )
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شَہْد میں شفا رکھی ہے چنانچہ پارہ 14سورۃُ النحل کی آیت نمبر 69 میں اِرشاد ہوتا ہے : (فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِؕ-) ترجمۂ کنزالایمان : ”جس (شہد) میں لوگوں کی تندرستی ہے ۔ “حدیث شریف میں ہے : اَلشِّفَآءُ شِفَاءَانِ، قِرَاءَۃُ الْقُرْاٰنِ وَشُرْبُ الْعَسَلِ یعنی شِفا دو چیزوں میں ہے ، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے اور شہد پینے میں ۔ (مستدرکِ حاکم ، کتاب الطب ، الشفاء شفاءان...الخ ، ۵ / ۲۸۲، حدیث : ۷۵۱۳ )
شَہْد کے چار رَنگ ہوتے ہیں : اَبیض(سفید)، اَصْفَر(زرد)، اَحمر(سرخ)اور اَسْوَد(کالا) اور یہ رنگ بھی مکّھی کی عمر کے اِعتبار سے ہوتے ہیں ۔ سفید رنگ جوان مکّھی کا ہو گا اور زرد ادھیڑ عمر والی کا اور سُرخ رنگ بوڑھی مکّھی کا اور کالا رنگ اُس مکّھی کا ہو گا جو اس سے زائد عمر میں پَہُنچ کر محنت کرے ۔ (تفسیرحسنات، پ۱۴، النحل، تحت الآیۃ : ۶۹، ۳ / ۶۳۷ ماخوذاً)
مُفَسّرِشہیر، حکیمُ الاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم روزانہ صبح کو ایک پیالہ شہد کا شربت نوش فرمایا کرتے تھے ۔ ( مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۲۵۱ )پانی میں شَہْد ملا کر صبح خالی پیٹ پینا بَہُت سارے منافِع کا مجموعہ ہے ۔ خالی پیٹ میں شہد فوراً جَذب ہو کر مِعدہ کی صفائی کرتا اور جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ حضرتِ سیِّدُنا ابُوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ صحت نشان ہے : جو کوئی ہر ماہ تین دِن صبح کے وَقْت شَہْد چاٹ لے وہ اس مہینے کسی بڑی بَلا میں مبتلا نہ ہو گا ۔ (اِبنِ ماجہ ، کتاب الطب ، باب العسل ، ۴ / ۹۴، حدیث : ۳۴۵۰)
حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خُدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی :
یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم! میرے بھائی کو دَست کی بیماری ہے ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اسے شہد پلاؤ ۔ وہ شخص پھر دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کی : دَست اور زیادہ ہوگئے ہیں ۔ فرمایا : اسے شَہْد پلاؤ ۔ وہ شخص پھر آ کر عرض کرنے لگا کہ میں نے اپنے بھائی کو شہد پلایا ہے دَست اور زیادہ ہو گئے ہیں ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : اللّٰہتعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، جاؤ اُسے وہی شہد پلاؤ ، وہ گیا شہد پلایا تو وہ ٹھیک ہو گیا ۔ (بخاری ، کتاب الطب ، باب الدواء بالعسل ، ۴ / ۱۷، حدیث : ۵۶۸۴)
تفسیرِروحُ المعانی میں ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کو اس آدمی کے بارے میں علم تھا کہ اس کے یہ دَست شہد سے ہی جائیں گے ۔ اس لیے کہ اس مریض کے معدہ میں رَطُوباتِ لَزِجہ غلیظہ ( یعنی چپکنے والی غلیظ رطوبتیں) جمی ہوئی تھیں تو جب قابض دوا پہنچائی جاتی تو اسے فائدہ نہ ہوتا اور وہ پھسل کر دَستوں میں آجاتی اور دَست بدستور رہتے تو اس شہد نے معدے کی صفائی کر کے دَستوں کو بند کر دیا ۔ (روح المعانی ، پ۱۴، النحل ، تحت الآية : ۶۹، ۱۴ / ۵۷۰)
حضرتِ سیِّدُنا عامر بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں اپنے بُخار کی خبر بھیجی، میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم سے دَوا اور شِفا کا مُتلاشی تھا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے میری طرف شہد کی کُپی(بوتل)بھیجی ۔ (شُعَبُ الْاِیْمان ، باب فی المطاعم والمشارب ، أکل اللحم، ۵ / ۹۸، حدیث : ۵۹۳۱)
حضرتِ سیِّدُنا عَوف بن مالِک اَشجعیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہو گئے تو لوگوں نے عرض کی : کیا ہم آپ کا علاج نہ کریں ؟تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُن سے فرمایا : مجھے پانی دو ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے پانی کے بارے میں اِرشاد فرمایا : ( وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا)
(پ۲۶، قٓ : ۹) ترجمۂ کنزالایمان : ”اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اُتارا ۔ “پھر اِرشاد فرمایا : شہد لے آؤ ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شہد کے بارے میں فرمایا : (فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِؕ-) (پ۱۴، النحل : ۶۹) ترجمۂ کنزالایمان : ”جس(شہد) میں لوگوں کی تندرستی ہے ۔ “پھر اِرشاد فرمایا : زیتون لے آؤ کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے زیتون کے بارے میں اِرشاد فرمایا : (شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ)(پ ۱۸، ا لـنُّـور : ۳۵) ترجَمۂ کنزالایمان : ”بَرَکت والے پیڑ زیتون سے ۔ “جب لوگوں نے یہ ساری چیزیں حاضر کر دیں تو آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سب کو آپس میں ملایا اور پھر انہیں نوش فرمایا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تندرست ہو گئے ۔ (تَفْسِیرِقُرْطبی، پ۱۴، النحل، تحت الآية : ۶۹، ۵ / ۹۹، الجزء : ۱۰)
معزز قارئین!یہاں یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ احادیثِ مبارَکہ میں بیان کردہ علاج اپنی مرضی سے نہیں کرنے چاہئیں کہ ہو سکتا ہے وہ خاص خاص مَوقعوں، موسِموں کی مُناسِبتوں اور مخصوص لوگوں کے مِزاجوں اور طبیعتوں کے مُوافِق ہوں جیسا کہ مُفَسّرِ شہیر، حکیمُ الاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : احادیثِ شریفہ کی دَوائیں کسی حاذِق طبیب (یعنی ماہرِطبیب ) کی رائے سے استِعمال کرنی چاہئیں (اہلِ عرب کو تجویز کردہ دَوائیں) صِرف اپنی رائے سے استِعمال نہ کریں کہ ہمارے (طَبعی)مزاج اہلِ عرب کے (طَبعی)مزاج سے جُداگانہ ہیں ۔ ( مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۲۱۷)شہد ہی کو لے لیجیے کہ اس میں شِفا ہے تاہم بعض لوگوں کے وُجُود اِسے برداشت نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے انہیں نقصان دیتاہے لہٰذا وہ شہد کا اِستعمال نہ کریں ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ جلد 25 صَفْحَہ 88 پر رَدُّالمحتار کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : جن مِزاجوں (یعنی طبیعتوں)پر صَفرا (وہ زرد پانی جوپِتّے میں ہوتا ہے ) غالب ہوتا ہے شہد اُنہیں نقصان کرتا ہے بلکہ بارہا بیمار کر دیتا ہے ! باآنکہ(یعنی باوُجُود اس کے کہ)وہ(یعنی شہد) بنصِّ قرآنی(دلیلِ قرآنی سے ) شِفا ہے ۔ (رَدُّالْمُحتار، کتاب الاشربة ، ۱۰ / ۵۰ )مُفَسّرِشہیر، حکیمُ الاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان کے فرمان کا خُلاصہ ہے : طِبّ میں شہدکو دَست آوَر (یعنی دَست لانے والا) مانا گیا ہے لہٰذا دَستوں (یعنی ڈائیریا، لُوز مَوشن) میں شہد استِعمال نہ کیا جائے ۔ (مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۲۱۸ ملخصاً)
شَہْد کی مکھی کو نہیں مارنا چاہیے:
شَہْد کی مکّھی کو نہیں مارنا چاہیے کہ” نبیٔ کریم ، رَءُوْفٌ رَّحیمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے چیونٹی اور شَہْد کی مکّھی کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ “ (مُصَنّف اِبن اَ بی شیْبة ، کتاب الادب ، باب فی قتل النمل ، ۶ / ۲۵۹، حدیث : ۱ )
سیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے چار جانوروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چیونٹی، شَہْد کی مکّھی، ہُدہُد اور اِلٹورا(سبزرنگ کا پرندہ جو چھوٹے پرندوں کا شکار کرتا ہے ) ۔ (اِبنِ ماجَہ ، کتاب الصید ، باب ما ینھی عن قتلہ ، ۳ / ۵۷۸، حدیث : ۳۲۲۴) اَلبتہ ایسی چیونٹیاں جو بستروں پر چڑھ جاتی ہیں اور آدمی کی آنکھوں یا بدن کے دوسرے حصّوں پر کاٹ لیتی ہیں جس سے آدمی شدید تکلیف میں مبتَلا ہو جاتا ہے تو اِنہیں اپنے سے ضَرر(نقصان)کو دُور کرنے کے لیے فِنِس وغیرہ اَسپرے کے ذریعے مارنا جائز ہے ۔ اس کی اصل وہ اَحادیثِ مُبارکہ ہیں جن میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمنے کاٹنے والے کتّے ، چوہے وغیرہ کو قتل کرنے کا حکم اِرشاد فرمایا ہے ۔
حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عَمْرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسول ُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : مؤمن کی مثال شَہْد کی مکّھی کی طرح ہے جو کھاتی ہے تو پاکیزہ چیز(پھولوں کا رَس) اور پیدا کرتی ہے تو پاکیزہ چیز(شہد)اور جس پاکیزہ چیز پر بیٹھ جائے تو اُسے خراب کرتی ہے نہ توڑتی ہے ۔ (مستدرکِ حاکم ، کتاب الایمان، صفة حوضہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ...الخ ، ۱ / ۲۵۶، حدیث : ۲۶۱ مختصراً)
شَہْد کی مکّھی کے ڈنک میں عذابِ قبر وجہنم کی یاد ہے اور یہ تو مقامِ شُکر ہے کہ مجھے شَہْد کی مکّھی نے کاٹا ہے اگر اس کی جگہ کوئی بچھو ہوتا وہ کاٹ لیتا تومیں کیا کرتا؟
ڈنک مچھر کا بھی مجھ سے تو سہا جاتا نہیں
قبر میں بچھو کے ڈنک کیسے سہوں گا یاربّ (وسائلِ بخشش)
سُوال : شَہْد کی مکّھی جب کاٹتی ہے تو شدید دَرْد ہوتا ہے اس کا علاج اِرشاد فرما دیجیے ۔
جواب : شَہْد کی مکّھی اور دیگر کیڑے مکوڑوں کے کاٹے کے 9 علاج پیشِ خدمت ہیں :
(1) شَہْد کی مکّھی جب کاٹ لے تو فوراً اپنا یا کسی مسلمان کا تھُوک لگا لیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دَرْد میں کمی آجائے گی بلکہ ہر قِسم کے کیڑے مکوڑے حتّٰی کہ سانپ اور بچھو کے کاٹے پر بھی اِنسانی تھوک لگانا مُفید ہے ۔
(2) سانپ ، بچھو، شَہْد کی مکھی یا کوئی سا بھی زَہریلا جانور کاٹ لے ، تو پانی میں نمک ملا کر ڈَنک کی جگہ پر لگایئے بلکہ ممکِن ہو تو وہ جگہ اُس نمک والے پانی میں ڈَبو دیجیے اور مُعَوَّذَتَیْن یعنی سورۃُ الْفَلَق اور سورۃُ النَّاس پڑھ کر دم کیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ زَہر کا اثر زَائل ہو جائے گا ۔
(3) اگر آپ ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں شَہْد کی مکھیاں یا بچھو ہوتے ہیں تو پیاز کا رس 3 تولہ (تقریباً 35گرام)، اَن بجھا چونا 4گرام، نوشادر ایک تولہ (تقریباً 12 گرام) باہم ملا کر نِتھار (چھان) کر اپنے پاس محفوظ کر لیجیے اور بوقتِ ضَرورت بچھو اور شَہْد کی مکّھی کے کاٹنے کے مقام پر لگائیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ فائدہ ہو گا ۔
(4) اگر کسی کو سانپ ڈس لے تو پیاز کا رَس اور سَرسَوں کا تیل ہم وزن ملا کر مرض کی شدّت کے مطابِق آدھ آدھ گھنٹہ یا ایک ایک گھنٹہ بعد4تولہ (تقریباً 50 گرام) کی مقدار میں پلایئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآرام آ جائے گا ۔
(5) اگر شَہْد کی مکّھی کاٹ لے تو اس پر پیاز کا ٹکڑا باندھ لیجیے ۔ گرم پانی یا آگ سے جل جانے کی صورت میں بھی یہی طریقہ اِختیار کیجیے ۔
(6) اگر بچھویا شہد کی مکّھی وغیرہ کاٹ لے تو اس پر پیاز کاٹ کر یا مَسَل کر لگایئے اور نمک لگا کر پیاز کِھلایئے ۔
(7) جب کسی کو سانپ ڈس جائے تو اس کو پیاز کثرت سے کھلایئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ زَہر کا اثر دُور ہو جائے گا ۔
(8)کنکھجورا کاٹ لے تو پیاز اور لہسن کو پیس کر زخم پر لیپ کر دیجیے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ زہر کا اثر ختم ہو جائے گا ۔
(9) اگر پیاز کو پانی میں گھوٹ (پیس) کر گھر میں چھڑکیں تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سانپ بچھو وغیرہ بھاگ جائیں گے ۔