*واقعہ کربلا*
📜 *واقعہ کربلا*📜
✍🏻 *ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ*
📃 *تمہید:*
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اس کی ابتدا ہی ہمیں صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی قربانیاں یاد دلا کر ہم سے ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔یہ بات تو مسلمان جانتے ہیں کہ واقعہ کربلا محرم الحرام میں پیش آیا مگر ایک بڑی تعداد اس کی تفصیل نہیں جانتی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ان میں سے ہے جس کو بعض واعظین اور مقررین غیر مستند روایات کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ان دو باتوں کے پیش نظر میں نے یہ ذہن بنایا کہ عوام تک واقعہ کربلا مختصر مگر مستند طور پر پیش کیا جائے تاکہ عوام کو کچھ آگاہی بھی ہوجائے اور جو بیان کرنا چاہے وہ اس سے مدد حاصل کرلے۔چونکہ میری تحریریں خصوصا عوام کے لئے ہوتی ہیں اس لئے میں عموما خلاصۃ اور آسان انداز میں تحریر لکھتا ہوں اور الحمدللہ اس کی وجہ سے فیڈ بیک بھی اچھا ملتا ہے،اس لئے اس تحریر کو بھی خلاصہ کر کے پیش کروں گا۔
📍اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ذکر شہادت پڑھنے یا سننے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:"مولانا شاہ عبد العزیز صاحب کی کتاب جو عربی میں ہے (سر الشہادتین) وہ یا حسن میاں مرحوم میرے بھائی کی کتاب آئینہ قیامت میں صحیح روایات ہیں انہیں سننا چاہیے،باقی غلط روایات کے پڑھنے سے نہ پڑھنا اور نہ سننا بہت بہتر ہے۔
📙 *(ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم،ص 293)*
میں نے بھی اس تحریر کے لئے ان دو کتابوں کو منتخب کیا ہے،اللہ پاک قبول فرمائے۔
📖 *ابتدائی حالات*
رجب سن 60 ہجری میں جب یزید پلید تخت سلطنت پر بیٹھا تو سب سے پہلے اس نے امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے کی کوشش کی اور آپ کو رضی اللہ عنہ کو زہر دلوایا،پہلے تو زہر نے کچھ نقصان نہ پہنچایا مگر بعد میں سخت تیز زہر دینے کی وجہ سے آپ کو شدید تکلیف پہنچی اور اس کے اثر سے آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔
وصال شریف سے پہلے امام حسن رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی:" حسین! دیکھو کوفہ کے بے وقوف لوگوں سے بچ کر رہنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں باتوں میں لے کر اپنے پاس بلا لیں اور وقت پر چھوڑ دیں،پھر بچاؤ کا وقت گزر جائے گا۔"
آپ کی یہ وصیت موتیوں میں تولنے کے قابل تھی مگر اس ہونے والے واقعے کو کون روک سکتا تھا جسے قدرت نے مدتوں پہلے سے مشہور کر رکھا تھا۔
📢 *شہادت کی شہرت*
1- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے تین سو سال پہلے ایک شعر پتھر پر لکھا ملا جس کا ترجمہ یہ ہے:
کیا حسین (رضی اللہ عنہ) کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پائیں گے؟
2- امام حسین رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ کی گود مبارک میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار فرمانے لگے تو فرشتے نے عرض کی:" وہ وقت قریب آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت انہیں شہید کرے گی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو وہ زمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا دوں جہاں یہ شہید کئے جائیں گے۔پھر سرخ ریت/مٹی/کنکریاں حاضر کیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سونگھ کر فرمایا: کرب و بلا کی بو آتی ہے پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو وہ مٹی عطا ہوئی اور ارشاد فرمایا:" جب یہ خون ہوجائے تو جاننا کہ حسین شہید ہوا" انہوں نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھ چھوڑی۔
📝 *یزید پلید کا پیغام امام پاک کے نام*
یزید پلید نے اپنی بیعت لینے کے لئے مختلف ممالک میں خطوط روانہ کئے تو ساتھ ہی مدینہ پاک میں موجود امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لئے وہاں کے صوبہ دار کو بھی خط بھیجا، خط پڑھ کر اس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلوایا تو امام حسین رضی اللہ عنہ پہلے ہی سمجھ گئے کہ مجھے بیعت کے سلسلے میں بلوایا جا رہا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے جب خط پڑھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فورا انکار کردیا اور واپس چلے آئے۔
آپ رضی اللہ عنہ کے انکار کے سبب یزیدیوں میں اسی وقت بغض اور دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی لہذا آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ پاک سے مکہ مکرمہ روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا۔
🕋 *مکہ مکرمہ روانگی*
یزید کا آدمی جب دوبارہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا صبح ہونے دو، 4 شعبان 60 ہجری کی رات میں ہی آپ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ سفر کرنے کا ارادہ فرمایا،رات کے تین پہر گزر چکے جب آپ نے سامان سفر درست فرمایا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور پر حاضر ہوگئے اور رات وہیں گزاری،امام حسین رضی اللہ عنہ آرام کر رہے تھے کہ خواب دیکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو سینے سے لگا کر فرماتے ہیں:" حسین! (رضی اللہ عنہ) وہ وقت قریب ہے کہ تم پیاسے شہید کیے جاؤ گے اور جنت میں شہیدوں کے بڑے درجے ہیں۔"
آپ رضی اللہ عنہ نے روضہ مقدس پر آخری حاضری دے کر سفر شروع فرمایا۔آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے بیٹے،بھائی بھتیجے وغیرہ تھے۔راستے میں چند افراد سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عرض کی کہاں تشریف لے جا رہے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" فی الحال مکہ" تو سب نے آپ رضی اللہ عنہ کو کوفے جانے سے منع فرمایا۔بہر حال آپ رضی اللہ عنہ مکے شریف پہنچ گئے اور 7 ذو الحجہ تک وہیں قیام فرمایا۔
🗳️ *کوفیوں کی درخواستیں*
جب اہل کوفہ کو سارے معاملات کا علم ہوا تو ان کو اپنی دھوکہ بازی کی پرانی روش یاد آئی، انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھنا شروع کردیے کہ آپ یہاں تشریف لائیں ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور آپ ہمیں یزید کے ظلم سے نجات دلاوائیں،یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 150 خطوط آ پہنچے جس میں ان کی طرف سے جذبات عقیدت اور اخلاص کا اظہار تھا۔اتنی درخواستیں جمع ہونے پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے غور کرنا شروع کیا اور آخرکار یہ تجویز پیش کی پہلے میرے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو بھیجا جائے گا اگر کوفیوں کا رویہ ان کے ساتھ صحیح ہوا تو میں بھی روانہ ہوجاؤں گا۔
یہاں ایک بات یاد رہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ اس لئے بھی تھا کہ اگر میں منع کردوں تو کہیں اہل کوفہ یہ عذر پیش نہ کردیں کہ ہم نے تو امام حسین رضی اللہ عنہ سے التجائیں کیں مگر آپ رضی اللہ عنہ نے توجہ نہ کی تو بالاخر ہمیں یزید کی بیعت کرنا پڑی،امام حسین رضی اللہ عنہ نے اتمام حجت کے لئے یہ راہ اختیار فرمائی۔
🎠 *مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں*
امام حسین رضی اللہ عنہ کا ارشاد ملتے ہی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ اپنے دونوں بیٹوں محمد اور ابراہیم کو ساتھ لے کر کوفہ روانہ ہوگئے ، جب آپ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو کوفیوں نے آپ کا استقبال کیا اور پہلے ہی دن 12000 افراد نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ مختار بن ابی عبید کے مکان پر تھے اور لوگ جوق در جوق وہاں آتے رہے اور مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو اتنا اطمینان دلایا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہاں کے بہتر حالات کی خبر دی اور تشریف لانے کو کہ دیا۔
کوفہ میں موجود بعض یزیدیوں نے یزید کو خبر پہنچائی کہ کوفہ میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ آچکے ہیں اور ہزاروں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی ہے اور کوفہ کے گورنر صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہے،یہ اطلاع ملتے ہی یزید نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو معزول کردیا اور عبید اللہ بن زیاد جو کہ بصرہ کا بھی گورنر تھا اسے یہاں کا حاکم بنا دیا۔ ابن زیادہ نے آتے ہیں کوفیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا اور وہاں کے بڑے بڑے سرداروں کو قلعے میں بلوا کر نظر بند کردیا،اس وقت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہانی بن عروہ کے گھر میں تھے،ابن زیاد نے فوج بھیج کر ہانی بن عروہ کو بھی گرفتار کروا لیا۔مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے جب یہ حالات دیکھے تو لوگوں کو بلانا شروع کیا،دیکھتے ہی دیکھتے 40000 افراد جمع ہوگئے اور انہوں نے قلعے کا محاصرہ کرلیا لیکن ابن زیادہ کی چال کامیاب ہوگئی کہ قلعے سے کوفہ کے سرداروں،رئیسوں اور اہل منصب نے اپنے متعلقین کو مسلم رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑنے کا حکم دیا۔حکم سنتے ہی ان بے وفاؤں نے دور ہونا شروع کردیا اور پورا لشکر منتشر ہوگیا،مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی مسجد میں نماز مغرب ادا کی اس وقت آپ کے ساتھ 500 افراد رہ گئے اور جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو ایک بندہ بھی موجود نہ تھا۔مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ان ایک گھر میں پناہ لی،وہاں موجود ایک شخص مخبری کر دی،خبر پاتے ہی ابن زیاد نے فوج بھیجی،انہوں نے مسلم رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا،آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی فوج کو تتر بتر کردیا،لیکن وہ تعداد میں زیادہ تھے جب انہوں نے سخت حملہ کیا تو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے لیکن ہمت نہ ہاری،آخر کار انہوں نے یہ حیلہ کیا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہم آپ سے جنگ نہیں کرنا چاہتے،آپ کو امان ہے،بس آپ ابن زیاد کے پاس ہمارے ساتھ چلیں، مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے ان کی بات پر اعتماد کیا اور آپ رضی اللہ عنہ رونے لگے، کسی نے کہا آپ جیسا بہادر رو رہا ہے،فرمانے لگے اپنے لئے نہیں رو رہا بلکہ میں نے جو امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہاں بلا لیا ہے اس لئے رو رہا ہوں،وہ تمہارے بھروسے پر آرہے ہونگے،مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے امان فائدہ نہ دے گی بس اتنا کردو کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو میرے حال کی خبر پہنچا دو۔جب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو ابن زیاد بدنہاد کے کے پاس لایا گیا تو واقعی وہ امان فائدے مند ثابت نہ ہوئی بلکہ قلعے میں موجود ابن زیاد کے بندوں نے قلعے میں داخل ہوتے ہی امام مسلم رضی اللہ عنہ پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ پیاسے شہید ہوئے اور ان ظالموں نے مسلم رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کو بھی شہید کردیا۔
🛳️ *امام حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ روانگی*
امام مسلم رضی اللہ عنہ کی طرف سے بہتر حالات کی خبر ملنے پر امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔اس سفر میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو افراد تھے ان میں سے چند کے نام نیچے لکھے جارہے ہیں:
امام حسین رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے
علی اکبر علی اوسط،علی اصغر
ایک بیٹی
سکینہ
دو ازواج
شہربانو اور علی اصغر کی والدہ
امام حسن کے چار بیٹے
قاسم،عبداللہ،عمر،ابوبکر (چاروں کربلا میں شہید ہوئے)
حضرت علی کے پانچ بیٹے
عباس،عثمان،عبداللہ،محمد،جعفر (سب کربلا میں شہید ہوئے)
حضرت عقیل کے ایک بیٹے حضرت مسلم تو پہلے شہید کردیے گئے باقی تین بیٹے کربلا میں شہید ہوئے
عبد اللہ،عبد الرحمن،جعفر
جعفر طیار کے دو پوتے
محمد،عون (کربلا میں شہید ہوئے)
رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین
جب یہ قافلہ بڑھا تو ابن اشعث کا بھیجا ہوا آدمی ملا اور اس نے مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنائی۔بعضوں نے یہاں سے واپس جانے کا مشورہ دیا مگر مسلم رضی اللہ عنہ کے عزیزوں نے کہا اب ہم نہیں پلٹ سکتے،یا خون کا بدلہ لیں گے یا مسلم رضی اللہ عنہ سے جا ملیں گے۔امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے بعد زندگی بے کار ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ ترک فرما دیا اور قافلہ آگے روانہ ہوگیا،جب کوفہ قریب آنے والا تھا تو حر رضی اللہ عنہ ملے اور ان کے ساتھ ابن زیاد کے بھیجے ہوئے ایک ہزار ہتھیار بند سوار تھے۔حر رضی اللہ عنہ اہل بیت سے عقیدت رکھتے تھے اور ان کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتے تھے مگر ابن زیادکے ہاتھوں مجبور تھے۔حر نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ آپ ہمارے ساتھ ابن زیاد کے پاس چلیے،امام حسین رضی اللہ عنہ نے انکار کیا،آپ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں یہاں خود نہیں آیا بلکہ مجھے خطوط بھیج کر بلایا گیا ہے،حر کہنے لگے کہ کونسے خط؟ مجھے اس کی اطلاع نہیں،جب امام حسین رضی اللہ عنہ نے کچھ خط ان کو دکھائے تو کہنے لگے کہ میں خط لکھنے والوں میں سے نہیں،مجھے فی الحال آپ کو لے جانے کا حکم دیا گیا ہے، حر صرف ابن زیاد کی سختی کی وجہ سے اپنی بات سے پیچھے نہیں ہوئے،بالاخر امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی راہ سے ہٹ کر کربلا میں اترنا پڑا۔
یہ 2 محرم 61 ھجری تھی،آپ رضی اللہ عنہ نے اس مقام کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس جگہ کو کربلا کہتے ہیں،آپ رضی اللہ عنہ اس نام سے واقف تھے کہ اسی مقام پر اہل بیت پر شدید ظلم کیا جائے گا۔
ابن زیاد کو جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں خبر ملی تو اس نے یزید کی بیعت طلب کرنے کے بارے میں ایک مکتوب روانہ کیا،امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دینے سے انکار کردیا جس سے ابن زیاد کو طیش آگیا،اس نے مزید فوجی ترتیب دیے اور عمرو بن سعد کی سربراہی میں 22000 کا لشکر کربلا پہنچا اور فرات کے کنارے پراؤ ڈال لیا۔
ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ عنہ پر مزید سختیاں کرنے کے لئے خط بھیجتا رہا کہ حسین (رضی اللہ عنہ) پر سختی کرو،جہاں اتریں میدان میں اتریں پانی سے دور رہیں۔عمرو بن سعد نے فرات کے کنارے 500 سوار بھیج کر امام حسین رضی اللہ عنہ پر پانی بند کردیا۔ایک رات امام حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعد کو بلوا کر سمجھایا دنیا و آخرت میں اچھا بدلہ دلانے کی ضمانت لی مگر وہ نہ سمجھا۔کچھ دنوں تک یہ سلسلہ رہا اور عمرو بن سعد کے رویے میں نرمی بھی آئی اس نے ابن زیاد کو خط لکھ دیا کہ صلح کی کوئی راہ نکالی جائے،جب ابن زیاد نے خط پڑھا تو اس کے پاس موجود ایک خبیث شمر بولا کہ کیا امام حسین کی باتیں مان لو گے؟ اگر وہ تمہاری اطاعت کیے بغیر چلے گئے تو تمہارے لئے ذلت کی بات ہے،تو یوں صلح نہ کی جائے بلکہ اپنا رعب باقی رکھو کہ تو حکم دے تو واپس جائیں لیکن تو سزا دے تو مالک ہے تو معاف کردے تو تیرا احسان ہے،ابن زیاد بدنہاد نے اس خبیث سے کہا تو صحیح کہتا ہے، تو میرا خط عمرو بن سعد کے پاس لے جا اگر وہ مان لے تو ٹھیک نہ مانے تو تُو سردار لشکر ہے، عمرو بن سعد کا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دینا۔پھر ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو خط لکھا کہ میں نے تمہیں اس لئے نہیں بھیجا کہ تو سفارشی بنے،حسین (رضی اللہ عنہ) سے میرے اطاعت کا کہ،اگر مان جائیں تو ٹھیک ورنہ قتل کردے۔ (معاذ اللہ) اگر تو بات مانے گا تو انعام دیا جائے گا ورنہ لشکر شمر کے لئے چھوڑ دے۔
شمر نے خط لا کر عمرو کو دیا اور پوچھا کیا ارادہ ہے؟ عمرو نے کہا ابن زیاد کی اطاعت کروں گا۔
9 محرم 61 ہجری کو امام حسین رضی اللہ عنہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی خبر دی اور دعا فرمائی: اے اللہ حسین کو صبر اور اجر عطا فرما۔
جب صلح وغیرہ کی کوئی راہ پیدا نہ ہوئی اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اب خلاصی کی کوئی صورت نہیں ہے اور نہ اس جنگ کو دور کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے قیام گاہ کے ارد گرد ایک خندق کھودنے کا حکم دیا۔خندق کھودی گئی اور صرف ایک راستہ رکھا گیا جہاں سے نکل کر دشمنوں سے مقابلہ کیا جائے۔خندق میں آگ جلادی گئی تاکہ اہل خیمہ دشمنوں کی ایذا سے محفوظ رہیں۔
📚 *دس محرم کے واقعات*
10 محرم 61 ہجری جمعہ کا دن قیامت صغری لے کر آیا۔فجر کی نماز امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقا کے ساتھ باجماعت نہایت خشوع و خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ ادا فرمائی،تمام حضرات تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں ایک قطرہ پانی کا نہیں پیا،ایک لقمہ حلق سے نہیں اترا،بھوک پیاس سے جس قدر کمزوری ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کو کبھی دو وقت کے فاقے کی نوبت آئی ہو،پھر وطن دوسرا،تیز دھوپ،گرم ریت،گرام ہوائیں ان سب نے اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین کو کیسا رنجیدہ کیا ہوگا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے اتمام حجت کے لئے یزیدیوں کے سامنے ایک خبطہ فرمایا جس میں بیان فرمایا کہ خون ناحق حرام ہے،میں کسی کو قتل نہیں کیا نہ کسی پر حملہ کیا تم کیوں میری جان کے دشمن ہو؟اپنا انجام سوچو اور اپنی آخرت پر نظر ڈالو،پھر یہ بھی سوچو کہ میں کون ہوں اور کس چشمِ کرم کا منظور نظر ہوں،میرے والد کون ہیں اور میری والدہ کس کی لخت جگر ہیں؟ یہ سب کچھ بیان کرنے کے باجود بھی ان بدبختوں نے یہ جواب دیا کہ ہمیں یہ سارے فضائل معلوم ہیں مگر ابھی ہم کسی اور مسئلے پر بحث کر رہے ہیں،آپ جنگ کے لئے کسی کو بھیجیں اور گفتگو ختم کریں۔گفتگو جاری ہی تھی کہ بعض بدنصیبوں نے گستاخی شروع کردی اور قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ انہیں ہاتھوں ہاتھ سزا ملتی گئی۔کسی نے خندق کی آگ کے بارے میں کہا کہ آپ نے جہنم کی آگ سے پہلے یہاں آگ لگا لی تو اس کو یہ سزا ملی کہ خود ہی اس خندق میں گر کر ہلاک ہوگیا۔ایک نے دریائے فرات سے پانی نہ ملنے کا طعنہ دیا تو خود پیاسا ہو کر مرا۔یہ سارے واقعات بھی ان کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ نہیں ہٹا پائے۔
پھر حر مجبورانہ لشکر کے ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے مگر بدن کانپ رہا تھا،دل کی دھڑکنے کی آوازیں ساتھ والے سن رہے تھے،یہ حالت دیکھ کر اس کے ہم قوم نے کہا : میں نے کسی لڑائی میں تمہارا یہ حال نہیں دیکھا ۔کہنے لگے میں سوچ رہا ہوں ایک طرف جنت کے پھول ہیں اور دوسری طرف جہنم کے شعلے اور میں اگر پرزے پرزے کر کے جلا دیا جاؤں تو بھی جنت چھوڑنا گوارا نہیں کرسکتا،یہ کہ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور کہا کہ اللہ پاک مجھے آپ پر قربان کردے،مجھے معلوم نہ تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا،صبر و رضا کے پیکر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا :" ہاں اللہ پاک توبہ قبول کرنے والا اور گناہ بخشنے والا ہے۔"
⚔️ *جنگ کا باقاعدہ آغاز*
بارگاہ حسینی سے قبولیتِ توبہ کی دعا لے کر حر میدان جنگ میں پہنچ گئے اور لڑائی کا آغاز ہوگیا اور خوب یزیدیوں کے ناک میں دم کیا،خوب تلوار کے وار کیے،مگر بالاخر شہادت کا جام پیا۔اس کے بعد اہل بیت کے نوجوانوں نے شجاعت کی وہ مثال ثبت فرمائی جس کو کوئی بھی مٹا نہیں سکتا۔ان حضرات کا میدان میں آنا تھا کہ دشمن لرزنے لگے، ان کے دل کانپنے لگے،بہادر کہلانے والے چیخنے لگے۔خاندان امام کے نواجوان اپنے اپنے جوہر دکھا دکھا کر امام حسین رضی اللہ عنہ پر جان قربان کرنے لگے،جب یزیدی اہل بیت کے ایک جوان سے لڑ لڑ کر تھک جاتے تو ایک جماعت بن کر حملہ کردیتے،یہاں تک کہ ابن سعد نے اعتراف کیا کہ اگر ہم دھوکہ بازی نہ کرتے اور پانی بند نہ کرتے تو اہل بیت کا ایک ہی جوان ہمارے پورے لشکر کو برباد کر ڈالتا،جب وہ مقابلے کے لئے اٹھتے تو ایسا لگتا قہر الہی آرہا ہے۔
معاملہ اب یہاں تک پہنچا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند میدان جنگ میں جانے کی اجازت چاہتے ہیں۔عجیب وقت ہے چہیتا بیٹا شفیق باپ سے گردن کٹوانے کی اجازت چاہتا ہے، اصرار اس حد تک تھا کہ چار و ناچار امام حسین رضی اللہ عنہ کو اجازت دینا ہی پڑی۔خود اپنے لخت جگر کو گھوڑے پر سوار کیا اور اہل بیت کا جگمگاتا چراغ آخری سلام کرتے ہوئے روانہ ہوگیا۔علی اکبر رضی اللہ عنہ جو شیر خدا کی شجاعت کے وارث تھے انہوں نے دشمن کی صفوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا،لیکن سخت دھوپ میں انہیں پیاس کا غلبہ ہوا،والد کی طرف واپس ہوئے عرض کیا :" اے والد مشفق! پیاس کا بہت غلبہ ہے۔" والد بزرگوار نے شفقت سے چہرے کی مٹی صاف کی اور اپنی انگلی بیٹے کے منہ میں ڈال دی،والد کی اس مہربانی سے کچھ سکون ملا اور میدان کا رخ کیا اور صدا دی کہ کوئی جان پر کھیلنے والا ہو تو سامنے آئے۔عمر بن سعد نے کہا شرم کی بات ہے کہ یہ اکیلا نوجوان میدان میں ہے اور تم ہزاروں کی تعداد میں ہو۔یزیدی ایک بار پھر حملہ آور ہوئے مگر ناکام ہی رہے، اتنے میں علی اکبر رضی اللہ عنہ کو پھر پیاس کا غلبہ ہوا دوبارہ والد کی بارگاہ میں آئے تو اب کی بار امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حوض کوثر سے سیراب ہونے کا وقت قریب آگیا ہے،یہ سن کر علی اکبر رضی اللہ عنہ میدان کی طرف لوٹ گئے اور لشکر دشمن پر حملہ کرنے لگے،اس مرتبہ دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر حملے شروع کردیے،آپ بھی حملہ فرماتے رہے اور دشمن ہلاک ہو کر خاک میں ملتے گئے لیکن چاروں طرف کے حملوں نے تن نازک کو شدید زخمی کردیا اور آخر کار جام شہادت نوش کیا۔
ایک اور دل ہلا دینے والا واقعہ پیش آیا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بیٹے جو ابھی شیر خوار تھے،والدہ کا دودھ خشک ہوچکا تھا،پانی کا نام و نشان نہیں،ایسے میں امام حسین رضی اللہ عنہ سے اس حقیقی مدنی منے کی تڑپ برداشت نہ ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہ انہیں لے دشمن کے سامنے پہنچے اور فرمانے لگے کہ یہ شیر خوار پیاس سے دم توڑ رہا ہے اس کی بے تابی دیکھو اور کچھ رحم کا مادہ پاؤ تو اس کا حلق تر کرنے کے لئے کچھ پانی دے دو،ان بدنصیبوں ظالموں کو رحم تو کیا آتا ایک بدبخت نے تیر مار دیا جو علی اصغر رضی اللہ عنہ کا حلق چھیدتا ہوا امام حسین رضی اللہ عنہ کے بازو میں لگا،بچے نے تڑپ کر جان دے دی،امام حسین رضی اللہ عنہ جب انہیں واپس لائے تو بچے کو سکون میں دیکھ کر سمجھے کہ پانی مل گیا،جب امام حسین رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو فرمایا کہ ساقی کوثر کے جام رحمت سے سیراب ہونے کے لئے اپنے بھائیوں سے جا ملا۔
🩸 *امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت*
اب وہ وقت آیا کہ جاں نثار ایک ایک کر کے رخصت ہوگئے اور جانیں قربان کر گئے۔اب تنہا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹے امام زین العابدین علی اوسط جو کہ بیمار تھے رہ گئے،امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے خود جانے کی اجازت طلب کی لیکن آپ اتنے بیمار تھے کہ کھڑے بھی نہ ہو سکتے تھے،امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تمہاری ذات سے امیدیں وابستہ ہیں،اہل بیت کو وطن تک تم پہنچاؤ گے،پاک بیبیوں کی حفاظت کرو گے،تبلیغ کا ذمہ تم سر انجام دو گے،میری نسل تم سے آگے بڑھے گی،حسینی سیدوں کا سلسلہ تم سے چلے گا۔ پھر عمامہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سر پر باندھا،امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی سپر پشت پر رکھی،حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذوالفقار حمائل کی،گھوڑے پر سوار ہوئے۔اہل خیمہ نے اس منظر کو کس طرح دیکھا ہوگا،مشفق باپ کا سایہ اٹھنے والا ہے،ازواج کا سہاگ رخصت ہورہا ہے،نہ کسی کے بدن میں حرکت نہ کسی کی زبان پر جنبش،نوارنی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔اس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ عورتوں کو صبر کی تلقین فرمائی اور تشریف لے چلے۔خیمہ سے چلے میدان میں پہنچے۔آپ نے حمد و صلاۃ کے بعد خطبہ پڑھا اور رقت انگیز خطاب فرمایا،یہ تقریر سن کر بعض کوفی رونے لگے لیکن شمر جیسے پلید کچھ متاثر نہ ہوئے بلکہ شمر تو کہنے لگا آپ یہ قصے سنانا بند کیجئے اور ابن زیاد کے پاس چل کر یزید کی بیعت کرلیجئے ورنہ جنگ کے لئے تیار ہوجائیے۔آپ نے جب یہ اطمینان کرلیا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے طور پر مکمل کوشش کرلی تو فرمایا کہ جو ارادہ رکھتے ہو پورا کرو اور جس کو مقابلے کے لئے بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ایک ایک کر کے یزیدی آتے رہے اور نیست ہوتے رہے یہاں تک کہ لاشوں کے انبار لگ گئے۔بالاخر ہزاروں یزیدی دوڑ پڑے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا اور تلوار برسانی شروع کردی مگر علی رضی اللہ عنہ کے حقیقی وارث نے ہار نہیں مانی اور ہزاروں کے گھیرے میں بھی دشمنوں کا سر اڑاتے رہے،کوفیوں کی عزت خاک میں مل گئی،تمام مشہور لوگ اور ان کی فوجیں امام حسین کے ہاتھ سے نہ بچ سکیں،اچانک انہوں نے چاروں طرف سے تیر برسانے شروع کردیے گھوڑا بھی اس قدر زخمی ہوگیا کہ کام کی قوت نہ رہی،ناچار امام حسین رضی اللہ عنہ کو ایک طرف ٹھرنا پڑا،ہر طرف سے تیر آرہے تھے،نورانی جسم زخموں سے چور اور لہو لہان ہوگیا،ایک تیر امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیشانی مبارک پر لگا جس سے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر چکرانے لگا آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے اور یزیدیوں نے نیزے مار کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔
⚖️ *شہادت کے بعد کے واقعات اور دشمنوں کا عبرتناک انجام*
امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو ابن زیاد کے پاس بھیجا گیا،اس سر مبارک سے عجیب و غریب کرامات کا ظہور ہوا،کبھی سر مبارک سے آسمان تک نور بلند ہوتا تو کبھی کسی کے گھر کی دیواروں سے خون بہنے لگتا،کبھی سر مبارک سے آیات کی قراءت کی آواز آتی۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت میں تھوڑی سی بھی مدد کرنے والا کا عبرتناک انجام ہوا،64 ہجری میں یزید درد ناک مصیبت میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوا،65 ہجری میں مختار ثقفی کے حکم پر ابن سعد اس کے بیٹے اور شمر کی گردن اڑا دی گئی،اور اسی کے حکم پر امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر آنے والوں کو چن چن کر مارا گیا،دس محرم 67 ہجری اسی کربلا کے میدان میں اسی نہر فرات کے کنارے مختار کے حکم پر ابن زیاد کا سر کاٹ کر اس کے سامنے لایا گیا۔
🗓️ 7 محرم 1442 بمطابق 27 اگست 2020
📚 *میری دیگر تحریریں پڑھنے کے لئے اس لنک پر جائیں،اور کتاب کھول کر نیچے pdf کو آپشن کو کلک کر کے ڈاؤن لوڈ کریں۔
https//archive.org/details/@farazattari26
0321-2094919