یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

قیام پاکستان اور علمائے اہلسنت



🇵🇰 *قیام پاکستان اور علمائے اہلسنت*🇵🇰

📝 اگر کسی شخص کی یاداشت چلی جائے تو گویا وہ اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے، اسی طرح اگر قوم اپنی تاریخ بھلا بیٹھے تو وہ اپنا تشخص گنوا دیتی ہے۔لہذا ہمیں اپنے علما و اکابر کا ذکر کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارا تشخص برقرار رہے، شروع سے ہی علماء اہلسنت نے باطل کے خلاف علمی، قلمی، لسانی، بدنی جہاد کیا ہے، اسی طریقے کو برصغیر کے علما نے بھی جاری رکھا اور ہر دور میں عوام اہلسنت کی سرپرستی و رہنمائی کی، جب غیر مسلموں کی خوشی کے لئے معاذ اللہ دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ترمیم کی باطل کوشش کی گئی اور الحاد کو فروغ دینے کا ارادہ کیا گیا تو مسلک اہلسنت کے عظیم بزرگ عالم ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے ان ملحدانہ جرات کو چیلنج کیا اور مسلمانوں کی ملِّی حیثیت کو خوب عام کیا۔

⚔️  جب غیر مسلموں کو منبر پر بٹھایا جانے لگا، ان کو اپنا رہنما قرار دیا جانے لگا، غیر مسلموں کے ساتھ بھائی چارگی کو فروغ دیا جانے لگا، ساتھ ہی ساتھ مسلمان کہلانے والوں کی طرف سے اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جانے لگی اس دور میں اعلی حضرت امام اہلسنت حامی سنت ماحی بدعت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ہر باطل کو منہ توڑ جواب دیا اور انہیں کسی طرح مسلمانوں کو گمراہ نہیں کرنے دیا۔

🌐 اسی طرح علمائے اہلسنت نے قیام پاکستان میں اپنا اہم کردار ادا کیا بلکہ سب سے پہلے دو قومی نظریہ علمائے اہلسنت ہی نے پیش کیا اور پھر اس مقصد کے حصول کے لئے تحریکیں چلائی گئیں، جلسے منعقد کیے گئے اور عوام میں دو قومی نظریے کا صحیح خاکہ پیش کر کے ان میں جوش و جذبہ پیدا کیا۔

🇵🇰 *اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اور دو قومی نظریہ*

📢 1897ء میں پٹنہ بہار (انڈیا) میں پہلی سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سینکڑوں علما و مشائخ کی موجودگی میں خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے باضابطہ طور پر یہ تصور پیش کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور کسی غیر مسلم کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد نہیں ہو سکتا، جب کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ دو قومی نظریہ ‘‘ کے عنوان سے اپنی جدو جہد کا آغاز 1881ء ہی سے شروع فرما دیا تھا۔

🖋️ ایک غیر جانبدار مشہور مورخ اور کالم نگار عبد الرشید صاحب کا بیان ہے:" 1940 میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو حضرت بریلوی (امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ) کی کوششیں بارآور ہوئیں۔۔۔۔۔۔اس طرح قیام پاکستان کے سلسلے میں حضرت بریلوی کا حصہ قائد اعظم اور ڈاکٹر اقبال سے کچھ کم نہیں۔

🖊️ ڈاکٹر محمد مسعود نے لکھا کہ پاک و ہند کے عظیم مفکر اور شاعر ڈاکٹر اقبال جو پہلے ایک قومی نظریے کے موید تھے اور بعد میں دو قومی نظریے کے حامی ہوئے، انہوں نے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ کے فتاوی رضویہ کا گہرا مطالعہ کیا، اس لئے ظن غالب ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے خیالات میں ان دونوں کتابوں نے انقلاب پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

🇵🇰 *مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ* 

24 تا 27 جمادی الاول 1365ھ بمطابق 27 تا 30 اپریل 1946ء کو بنارس (انڈیا ) میں امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری رحمۃ اللہ کی زیر صدارت ایک چار روزہ آٹھویں عظیم الشان آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ اس کانفرنس کاانتظام خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا تھا۔ کانفرنس میں پانچ ہزار علما و مشائخ اور ساٹھ ہزار سے زائد عوام اہل سنت نے شرکت کر کے پاکستان کی پھر پور حمایت کی۔

✒️ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان سید انور علی لکھتے ہیں کہ علمائے اہلسنت نے نہ صرف نظریہ پاکستان پیش کیا بلکہ سب سے پہلے مولانا نعیم الدین مرآبادی نے اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے 1925 میں آل انڈیا سنی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔

🇵🇰 *قطب مدینہ مولانا ضیا الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ*

 قطب مدینہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت مولانا ضیاء الدین احمد قادری رضوی مدنی قیام پاکستان کے لئے دعا گو رہتے تھے۔چناںچہ مولانا نور احمد قادری علیہ رحمہ رقم طراز ہیں: ’’تحریک پاکستان کے آخری کٹھن مراحل کے وقت آپ کی دعائے مستجاب نے بڑا کام کیا۔ پاکستان کے معرض وجود آنے کے تقریباً نو دس ماہ قبل جو حج ہوا اور اس حج پر جانے والے برصغیر کے ان لوگوں نے جن کے دل میں پاکستان کا درد تھا اور آپ سے عقیدت رکھتے تھے، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ میں آکر جب آپ کے ہاں قیام کیا تو آپ سے عرض کیا کہ پاکستان کی تحریک آخری مراحل میں ہے مگر غیر مسلموں کا گٹھ جوڑ پاکستان بننے کی راہ میں حائل ہے۔ دعا فرمائیں کہ مشکل حل ہوجائے اور پاکستان بن جائے ، اس لئے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آبرو مندانہ زندگی اسی میں ہے تو آپ نے حرم شریف میں جا کر دعا فرمائی اور پھر ان تمام پاکستان کے متمنی لوگوں سے آپ نے فرمایا فکر نہ کرو، ان شاءاللہ پاکستان ضرور بنے گا اور دنیا کی کوئی بھی دشمن طاقت پاکستان کو بننے سے نہیں روک سکتی۔ چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا، پاکستان بن کر رہا اور پاکستان کے دشمن خائب و خاسر ہوئے۔

🇵🇰 *مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ*

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ ، مصنف ’’بہار  شریعت ‘‘ صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ دو قومی نظریہ کے عظیم مبلغ تھے، مارچ 1921 کو ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان کی مخالفت کرنے والے بدمذہب شریک ہوئے، ان کے لیڈران اس جوش و خروش سے آئے تھے کہ گویا ’’ہندو مسلم اتحاد ‘‘ کے مخالف علماء اہلسنت کو لاجواب کر دیں گے، مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے شعبہ علمیہ کے صدر کی حیثیت سے  غیر مسلموں سے اتحاد کے بارے میں ستر سوالات (اتمام حجت نامہ) مرتب کر کے ان کے قائدین  کو بھجوایا، بار بار اصرار اور مطالبہ کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے پچیسویں عرس مبارک کے موقع پر بریلی شریف میں تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’ہماری تمام سنی کانفرنس جو ملک کے گوشہ گوشہ ہر ہر صوبہ میں قائم ہیں، وہ پوری جدو جہد کر رہی ہیں

🇵🇰 *مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان رحمۃ اللہ علیہ*

 شہزادہ اعلی حضرت مفتی اعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان نوری رحمۃ اللہ علیہ  نے’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کے ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت فرمائی، 1946 ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں مشائخ و علما ء کی جو کمیٹی دستور مرتب کرنے کے لئے منتخب کی گئی آپ کو اس میں سر فہرست رکھا گیا، نیز مرکزی ’’دارالافتاء‘‘ کے سر پرست بھی تجویز کئے گئے۔ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے وائسرے ہند کے نام ایک ٹیلی گرام میں بھی اس بات پر زور دیا کہ صرف مسلم لیگ ہی ہندوستان کی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ 1946ء کے فیصلہ کن الیکشن میں مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ نے بریلی میں مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں سب سے پہلا ووٹ ڈالا ، لیگی رضاکار انہیں جلوس کی شکل میں مفتی اعظم پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے واپس آستانہ رضویہ تک لائے، اس تاریخی واقعے کو مولانا تقدس علی خان علیہ الرحمہ نے مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام ایک خط میں یوں فرمایا ہے: حضرت مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز غالباً 1946ء کے الیکشن میں جس میں کانگریس اورمسلم لیگ کا سخت مقابلہ تھا اور یہ فیصلہ ہونا تھا کہ پاکستان بنے یا نہیں ؟ اس میں اول ووٹ حضرت کا ہوا ، امیدوار عزیز احمد خان ایڈووکیٹ تھے ، عزیز احمد خان مسلم لیگ کی طرف سے تھے اور ووٹ ڈالنے کے بعد حضرت کو جلوس کی شکل میں مسلم لیگ کےرضا کار ’’مفتی اعظم پاکستان‘‘کے نعروں کے ساتھ آستانہ شریف پر واپس لائے۔

🇵🇰 *حجۃ  الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ*

 شہزادہ اعلی حضرت، حجۃ الاسلام مفتی محمد حامد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔مسلمانوں کی مذہبی علمی اور سیاسی ترقی کے لئے مقتدر علما نے ’’آل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ کانفرنس کے بانی اراکین میں حجۃ الاسلام کا اسم گرامی سر فہرست ہے ۔ کانفرنس کے پہلے اجلاس میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، معاشی، معاشرتی  ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے، وقت گزرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشان راہ ہے، اسی خطبے میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد کی بجائے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا : ’’بے شک دو گھوڑوں کو ایک گاڑی میں جوت کر زیادہ وزن کھینچا جا سکتا ہے، لیکن بکری اور بھیڑیے کو ایک جگہ جمع کر کے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔

🇵🇰 *مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ*
 
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ اجل اور قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی کے والد ماجد، سفیرِ اسلام ، مبلغ اعظم حضرت علامہ مولانا شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ’’تحریک پاکستان‘‘ میں ناقابل فراموش خدمات ہیں، چناچہ مبلغ اسلام علامہ محمد عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے تقریباً دس سال محکوم ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کےمطالبےکی پر زور ہمایت کی اور اس ضمن میں اپنے شب وروز ایک کردیئے۔ 1940 کی قراداد پاکستان کی منظوری کے بعد آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں نہایت سرگرمی کا مظاہرہ کیا اور مختلف شہروں کے دورے کر کے علمائے اہل سنت مشائخ عظام اور عوام الناس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہوں تاکہ ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے مؤثر انداز میں آئینی جنگ لڑی جا سکے ۔ مبلغ اسلام شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و  ستم پر احتجاج کہا، بمبئی اور مدراس میں تقریریں کر کے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی۔اس کے علاوہ آپ نے بیرون ممالک جا کر بھی اس تحریک کو اور مضبوط کیا جس سے اسلام اور پاکستان دشمن بدحواس ہوگئے۔

📿 اس کے علاوہ کئی سنی علما و مشائخ نے قیام پاکستان کے لئے دن رات کوششیں کیں، اور یہ انہی کی محنت، اخلاص، وسعت علمی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم الگ اسلامی ریاست میں موجود ہیں۔

📜 چند علما کے نام یہ ہیں: سیّد محمد محدث کچھوچھوی، مولانا امجد علی خان، ابوالحسنات سید محمد احمد قادری، ابوالبرکات سید احمد قادری،علامہ عبدالحامد بدایونی، امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، خواجہ قمر الدین سیالوی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا ابراہیم علی چشتی، مفتی سرحد، مفتی شائستہ گل، پیر عبدالرحیم پیر آف بھرچونڈی شریف، پیر آف مانکی شریف اورپیر آف زکوڑی شریف وغیرہ۔

🤲🏻 اللہ پاک علمائے اہلسنت کے فیوض برکات سے ہمیں مالا مال فرمائے۔

📍 *نوٹ* میری اس مضمون کی طرف توجہ نہیں تھی مگر ایک قابل احترام اسلامی بھائی نے توجہ دلائی تو یہ چند باتیں لوگوں کی معلومات کے لئے لکھ دیں ورنہ اس پر کئی صفحات لکھے جا سکتے ہیں اور لکھے گئے ہیں، آپ کے ذہن میں بھی کوئی ٹاپک ہو تو میرے نمبر پر میسج کریں ممکنہ صورت میں اس پر لکھنے کی کوشش ہوگی، میری دیگر تحریرات پڑھنے کے لئے اس لنک پر جائیں 👇🏻

https://archive.org/details/@farazattari26

✍🏻 *ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ*
📲 *+92-3212094919*
🗓️ *22 ذو الحجہ 1441 بمطابق 13 اگست 2020*