یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"عاشُورا ء کے فضائل"



تحریر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

 "عاشُورا ء کے فضائل"

(1)         حضرتِ سَیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایَت ہے حُضُورِ اکرم، نُور مُجَسَّم، رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم  فرماتے ہیں :’’رَمَضان کے بعدمُحرَّم کا روزہ افضل ہے اورفَر ض کے بعد افضل نَماز صلٰو ۃُ اللَّیل(یعنی رات کے نوافل)ہے۔‘‘ (صحیح مسلم،ص۸۹۱،حدیث۱۱۶۳)

(2(                طبیبوں کے طبیب ، اللہ کے حبیب ، حبیبِ لبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم  کا فرمانِ رَحمت نشان ہے :’’  مُحَرَّم کے ہر دن کا روزہ ایک مہینہ کے روزوں کے برابر ہے۔‘‘ 

یوم موسیٰ علیہ السلام

(3)    حضرتِ سیِّدُناعبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما  کا ارشاد ِگرامی ہے ، رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم جب مدینۃُ المنوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا میں تشریف لائے، یَہُو د کو عاشورا ء کے دن روزہ دار پایا توارشاد فرمایا:''یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟'' عَر ض کی، یہ عظمت والا دن ہے کہ اِسمیں موسٰی علیہِ الصّلٰوۃ وَالسّلام اور اُن کی قوم کو اللہ تعالٰی نے نَجات دی اور فرعون اوراُس کی قوم کو ڈَبودیا ۔ لہٰذا موسٰی علیہِ الصّلٰوۃ وَالسّلام نے بطورِشکرانہ اِس دن کا روزہ رکھا، توہم بھی روز ہ رکھتے ہیں۔ارشاد فرمایا: ''موسٰی علیہِ الصّلٰوۃ وَالسّلام کی مُوافَقَت کرنے میں بہ نسبت تمھارے ہم زیادہ حقدار اور زیادہ قریب ہیں۔ ''تو سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے خُود بھی روزہ رکھا اور اِس کا حُکْم بھی فرمایا۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ عَزَّوَجَلَّ کوئی خاص نِعمت عطا فرمائے اُس کی یادگار قائم کرنا دُرُست و محبوب ہے کہ اس طرح اُس نِعمتِ عُظمٰی کی یاد تازہ ہوگی اورا ُسکا شکر ادا کرنے کا سبب بھی ہوگا۔ خود قُراٰنِ عظیم میں ارشاد فرمایا :

وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ- (پ ۱۳،ابراھیم :۵)        ترجَمۂ کنزالایمان:اور انھیں اﷲ کے دن یاددلا۔

  

  صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی  اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ اَیّٰمِ اللہسے وہ دن مُراد ہیں جن میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ا پنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَنّ و سَلْویٰ اتارنے کا دن، حضر ت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن۔ ان اَیاّم میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیِّدِ عالَم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت ومِعراج کے دن ہیں ان کی یا د قائم کرنا بھی اِس آیت کے حکم میں داخِل ہے۔ (مُلخصاً خزائن العرفان، ص۴۰۹)

 

عاشُوراء کا روزہ

 (4)       حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں ،’’میں نے سلطانِ دوجہان، شَہَنشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کو کسی دن کے روز ہ کو اور دن پر فضیلت دیکر جُستُجو فرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشوراء کا دن اور یہ کہ رَمَضان کا مہینہ۔‘‘ (صحیح البخاری،ج۱،ص۶۵۷،حدیث۲۰۰۶)

یہودیّوں کی مُخالَفَت کرو

   (5)     نبیِّ رَحمت ،شفیعِ امّت،شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ یومِ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی مخالَفَت کرو، اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔‘‘(مسند امام احمد،ج۱،ص۵۱۸، حدیث۲۱۵۴)

      عاشوراء کا روزہ جب بھی رکھیں تو ساتھ ہی نویں یا گیارہویں محرم الحرام کا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے۔ 

    (6)    حضرتِ سیِّدُنا ابوقَتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے ر وایت ہے، رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں : ’’مجھے اللہ پر گُمان ہے کہ عاشورا ء کا روزہ ا یک سال قبل کے گُناہ مِٹادیتاہے۔‘‘(صحیح مسلم،ص۵۹۰،حدیث۱۱۶۲)

)7) عاشورا  کا روزہ گُناہ مِٹاتاہے:نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:مجھے   اللہ پاک کے کرم سے اُمّید ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص454، حدیث: 2746)

عاشورا  کا روزہ گُناہ مِٹاتاہے:نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:مجھے   اللہ پاک کے کرم سے اُمّید ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص454، حدیث: 2746)

شبِ عاشورا کاعمل: عاشوراکی رات آئے تو  یہ عمل  کیجئے: عاشوراء کی رات میں چارنفل اس طرح ادا  کیجئے کہ ہر رَکْعَت میں سُورۂ فاتحہ کے بعد آیۃُ الکرسی ایک بار اور سُورۂ اِخْلَاص (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ( پوری سورت) تین تین بار پڑھئے پھر نماز سے فارغ ہوکر سو مرتبہ سُورۂ اِخْلَاص(قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(پوری سورت) پڑھئے۔ اس کی برکت سے گناہوں سے پاک ہوگا اور بِہِشْت (جنّت) میں بے انتہا نعمتیں ملیں گی۔ (جنتی زیور،ص157بتغیر)

رِزْق میں فراخی کانسخہ:

 فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے: جو دس محرم  کو اپنے بچّوں کے خرچ میں فَراخی (یعنی کشادگی) کرےگا تو ﷲ پاک سارا سال اس کو فراخی دےگا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہم نے اس حدیث کا تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا۔(مشکاۃ المصابیح،ج1،ص365، حدیث:1926)

عاشورا کے دن کی دس نیکیاں:عاشورا کے دن 12 چیزوں کو عُلَما نے مستحب لکھا ہے:(1)روزہ رکھنا(2)صدقہ کرنا (3) نفل نماز پڑھنا (4)ایک ہزارمرتبہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنا (5)عُلَما کی زیارت کرنا (6)یتیم کے سَر پر ہاتھ پھیرنا (7)اپنے اہل و عِیال کے رِزْق میں وُسْعت کرنا (8)غسل کرنا (9) سُرمہ لگانا (10)ناخن تراشنا (11)مریضوں کی بیمار پُرسی کرنا (12)دشمنوں سے مِلاپ (یعنی صلح صفائی ) کرنا۔(جنتی زیور، ص158ملخصاً)

عاشورہکی خیرات کی برکات:


عاشورہ کے روز ملک’’رے‘‘میں

قاضی صاحب کے پاس ایک سائل آکر عرض گزار ہوا:میں ایک بہت نادار وعیال دار آدمی ہوں

آپ کو یومِ عاشورہ کا واسطہ! میرے لیے دوسیر روٹی،پانچ سیر گوشت اوردس درہم کا انتظام

فرمادیجئے،اللّٰہ تعالٰی آپ کی عزت میں برکت دے۔ قاضی

صاحب نے کہا:ظہر کے بعد آنا۔فقیر ظہر کے بعد آیا تو کہا:عصر کے بعد آنا۔وہ عصر کے

بعد پہنچا تب بھی کچھ نہیں دیا خالی ہاتھ ہی ٹَرخا دیا۔فقیرکا دل ٹوٹ گیا۔ وہ رنجیدہ

رنجیدہ ایک نصرانی(کرسچین) کے پاس پہنچا اوراس سے کہا: آج کے مقدس دن کے صدقے مجھے

کچھ دیدو۔اس نے پوچھا: آج کون سادن ہے؟ جواب دیا: آج یوم عاشورہ ہے۔ یہ کہنے کے بعد

عاشورہ کے کچھ فضائل بیان کیے۔ اس نے سن کر کہا آپ نے بہت ہی عظمت والے دن کا واسطہ

دیا، اپنی ضَرورت بیان کیجئے۔ سائل نے اس سے بھی وُہی ضَرورت بیان کردی۔اُس آدمی نے

دس بوری گیہوں، سوسیرگوشت اور بیس دِرہم پیش کرتے ہوئے کہا :یہ آپ کے اَہل وعِیال

کے لیے زندگی بھر ہر ماہ اس دن کی فضیلت وحرمت کے صدقے مقرَّر ہے۔ رات کو قاضی صاحب

نے خواب دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے نظر اٹھا کر دیکھ!جب نظر اٹھائی تو دو عالیشان مَحَل

نظر آئے،ایک چاندی اور سونے کی اینٹوں کا اور دوسرا سرخ یاقوت کا تھا۔قاضی نے پوچھا:

یہ دونوں محل کس کے ہیں ؟جواب ملا،اگر تم سائل کی ضَرورت پوری کردیتے تو یہ تمہیں ملتے

مگر چونکہ تم نے اُسے دھکّے کھِلانے کے باوُجُود بھی کچھ نہ دیا اس لئے اب یہ دونوں

محل فُلاں نصرانی(کرسچین) کے لئے ہیں۔ قاضی صاحب بیدار ہوئے تو بہت پریشان تھے ۔صبح

ہوئی تو نصرانی (کرسچین) کے پاس گئے اور اس سے دریافت کیا کہ کل تم نے کون سی’’نیکی‘‘کی

ہے؟اس نے پوچھا، آپ کو کیسے علم ہوا؟قاضی صاحب نے اپنا خواب سنایااور پیشکش کی کہ

مجھ سے ایک لاکھ درہم لے لو اور کل کی ’’نیکی‘‘مجھے بیچ دو !نصرانی نے کہا:میں روئے

زمین کی ساری دولت لے کر بھی اسے فروخت نہیں کروں گا،

ربُّ العِزَّت جَلَّ جَلَالُہٗ کی رحمت و عنایت بہت خوب ہے۔لیجئے میں مسلمان ہوتا

ہوں یہ کہہ کر اس نے پڑھا،اَشْھَدُ اَنْ لَّآ

اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ یعنی میں گواہی

دیتاہوں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق

نہیں اورگواہی دیتاہوںمحمداس کے بندۂ خاص

اور اس کے رسول ہیںصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ

وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔(رَوْضُ الرِّیَاحِینْ،ص۱۵۲)



سارا سال آنکھیں دُکھیں نہ بیمار ہو

        مُفَسّرِشہیر حکیم الامت حضرت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں :’’مُحرم کی نویں اور دسویں کو روزہ رکھے تو بَہُت ثواب پائے گا ۔ بال بچّوں کیلئے دسویں محرم کو خوب اچّھے اچّھے کھانے پکائے تو اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ  سال بھر تک گھر میں بَرکت رہے گی۔ بہتر ہے کہ کِھچڑا  پکا کر حضرِت شہید کربلا ناامامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی فاتحہ کرے بَہُت مُجرّب (یعنی مؤثر وآزمودہ)ہے۔ اسی تاریخ یعنی ۱۰ مُحرم الحرام کو غسل کرے تو تمام سال اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ  بیماریوں سے امن میں رہے گا کیونکہ اس دن آبِ زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے۔   ( تفسیر روح البیان،ج۴،ص۱۴۲،کوئٹہ۔اسلامی زندگی،ص۹۳)

سرورِکائنات،شاہ موجودات صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص یومِ عاشوراء اثمد سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اسکی آنکھیں کبھی بھی نہ ُدکھیں گی۔(شعب الایمان،الحدیث۳۷۹۷،ج۳،ص۳۶۷۔فیضان سنت،ص۱۳۴۷تا۱۳۵۴)

یوم عاشوراء سے متعلق ایک علمی  ، نفیس روایت:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ،  دانائے غیوب ،  منزہ عن العیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا:

٭ ’’ جس نے اپنی طرف سے کسی مومن کو عاشوراء کے دن روزہ افطار کرایا گویا اس نے محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی ساری امت کو روزہ افطار کرایا اور اس کو سیر کرایا۔ ‘‘  ٭ ’’  جس نے عاشوراء کے دن یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لیے اس یتیم کے سرکے ہر بال کے بدلے جنت میں   ایک درجہ بلند فرمائے گا۔ ‘‘  ٭ ’’ جس نے عاشوراء کے دن کسی مسکین کو کپڑا پہنایا گویا اس نے محمد( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ) کی ساری امت کے مساکین کو کپڑا پہنایا اور   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جنتی حلوں   میں   سے ستر ۷۰حلے پہنائے گا۔ ‘‘ 

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی بارگاہ میں   بصد عجزواحترام عرض کیا:  ’’ یَا رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْكَ لَقَدْ فَضَّلَنَا اللہُ عَزَّوَجَلَّ بِیَوْمِ عَاشُوْرَاءَ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ! کیا   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں   عاشوراء کے دن کے سبب اتنی فضیلت عطا فرمائی ہے؟ ‘‘  تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حبیب ،  حبیب لبیب ،  ہم گناہگاروں   کے طبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا:

٭ ’’  اے عمر! زمین وآسمان کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےعاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ سورج ،  چاند اور ستاروں   کوبھی   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ عرش وکرسی کوبھی   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ قلم اور لوح کوبھی   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ جبریل امین اور دیگر ملائکہ کوبھی   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’  حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور حواء عَلَیْہَا السَّلَام کو بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ جنت کوبھی   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن پیدا فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے عاشوراء کے دن جنت میں   سکونت اختیار فرمائی۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام عاشوراء کے دن پیدا ہوئے۔ ‘‘  ٭ ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے انہیں   عاشوراء کے دن آگ سے نجات عطا فرمائی۔ ‘‘  ٭ ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن ان کی رہنمائی فرمائی۔ ‘‘  ٭ ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرعون کو عاشوراء کے دن غرق فرمایا۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت عیسی عَلَیْہِ السَّلَام کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن آسمان پر اٹھایا۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن آسمانوں   پر اٹھایا۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت عیسی بن مریم عَلَیْہِمَا السَّلَام عاشوراء کے دن پیدا ہوئے۔ ‘‘  ٭ ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی توبہ قبول فرمائی۔ ٭ ’’ حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی کشتی عاشوراء کے دن جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام کوعاشوراء کے دن قید سے نکالا گیا۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم کی  اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عاشوراء کے دن توبہ قبول فرمائی۔ ‘‘  ٭ ’’ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کو عاشوراء کے دن بادشاہی عطا کی گئی۔ ‘‘  ٭ ’’ قیامت بھی عاشوراء کے دن ہی قائم ہوگی۔ ‘‘  ٭ ’’ آسمان سے پہلی بارش بھی عاشوراء کے دن ہی ہوئی۔ ‘‘ (بستان الواعظین  ،  مجلس فی فضل یوم عاشوراء ،  ص۲۲۸۔)


عاشوراء کی خصوصیات

 {۱} 10 محرم الحرام عاشوراء کے روز حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی توبہ قبول کی گئی۔{۲} اسی دن انہیں پیدا کیا گیا۔ {۳} اسی دن انہیں جنَّت میں داخِل کیا گیا۔ {۴}اسی دن عرش{۵} کُرسی {۶}آسمان {۷}زمین {۸}سورج {۹} چاند {۱۰} ستارے اور{۱۱} جنَّت پیدا کئے گئے {۱۲} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلامپیدا ہوئے{۱۳}اسی دن انہیں آگ سے نَجات ملی۔ {۱۴}اسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی اُمّت کو نَجات ملی اور فرعون اپنی قوم سَمیت غَرَق ہوا{۱۵} حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا کئے گئے{۱۶} اسی دن انہیں آسمانوں کی طرف اٹھا یا گیا{۱۷} اسی د ن حضرتِ سیِّدُنانوحعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی کشتی کوہِ جُودی پر ٹھہری{۱۸} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا سُلیمانعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کومُلکِ عظیم عطا کیا گیا{۱۹} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونُسعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلاممچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے {۲۰} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یعقوبعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بِینائی کا ضُعف دور ہوا{۲۱} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسفعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام گہرے کُنویں سے نکالے گئے{۲۲} اسی د ن حضرتِ سیِّدُنا ایوبعلٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکلیف رَفع کی گئی {۲۳}آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارِش اسی دن نازل ہوئی اور{۲۴} اسی دن کا روزہ اُمّتوں میں مشہور تھا یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ اس دن کا روزہ ماہِ رَمَضانُ المُبارَک سے پہلے فرض تھا پھرمَنسوخ کر دیا گیا(مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص ۳۱۱){۲۵}امامُ الہُمام،امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام، امامِ تِشنہ کام سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو بمع شہزادگان و رُفقاء تین دن بھوکا رکھنے کے بعد اسی عاشوراء کے روز دشتِ کربلا میں انتہائی سفّاکی کے ساتھ شہید کیا گیا۔      


دعائے عاشورہ:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یَا قَابِلَ   تَوْبَۃِ   اٰدَمَ  یَوْمَ  عَاشُوْرَآءَ  یَا فَارِجَ  کَرْبِ ذِی  النُّوْنِ  یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ  یَا جَامِعَ   شَمْلِ   یَعْقُوْبَ  یَوْمَ   عَاشُوْرَآءَ، یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ، یَا مُغِیْثَ  اِبْرَاھِیْمَ مِنَ  النَّارِ  یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ، یَارَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ  یَوْمَ  عَاشُوْرَآءَ، یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِیالنَّاقَۃِ  یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ، یَا نَاصِرَسَیِّدِ نَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ یَارَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِوَرَحِیْمَھُمَا، صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ، وَّصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَوَاقْضِ، حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَطِلْ عُمْرَنَا فِیْ، طَاعَتِکَوَمَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَاَحْیِنَاحَیٰوۃً، طَیِّبَۃً وَّتَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِوَالْاِسْلَامِ بِرَحْمَتِکَ۔

پھر سات بار پڑھے

  سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْئَ الْمِیْزَانِ وَمُنْتَھَیالْعِلْمِ وَمَبْلَغَ الرِّضٰی وَزِنَۃَ الْعَرْشِ لَامَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنَاللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ط سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِوَعَدَدَ کَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمَّاتِ کُلِّھَا نَسْئَلُکَ السَّلَامَۃَ بِرَحْمَتِکَیَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَط وَھُوَ حَسْبُنَا وَنِعْمَ الْوَکِیْلُطنِعْمَ الْمَولٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُط وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ الْعَلِیِّالْعَظِیْمِ ط وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰیاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِعَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَعَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ