کیا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔۔۔؟
زبان سے نیت کرنے کےمتعلق نام نہاد اہل حدیث غیر مقلدین کےاعتراض و چیلنج کا جواب اور بدعت کی حقیقت........؟؟
.
سوال:
علامہ صاحب ہمیں اندازہ ہے کہ آپ والدہ کی خدمت و دیکھ بھال علاج میں مصروف ہونگے مگر ہمیں بھی جلد جواب چاہیے…جتنا جلدی ہوسکے جواب مرحمت فرمائیں…سوال یہ ہے کہ یہاں کچھ اہل حدیث ، غیر مقلدین چیلنج کر رہے ہیں اور تحریر عام کر رہے ہیں کہ فقہ حنفی میں لکھا ہے کہ نماز کی نیت زبان سے کرنا بدعت و گناہ ہے
.
جواب:
پہلے تحقیق کر لیتے، احناف کی کتب غور سے پڑھ لیتے تو چیلنج دینے کی نوبت ہی نہ آتی مگر کیا کریے کہ اکثر غیرمقلد و نام نہاد اہلحدیث دو چار کتب و تحاریر پڑھ کر اتنے جری و بے باک و بےادب بن جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ
اللہ انہیں صبر وسعت شعور ادب و ہدایت نصیب فرمائے
.
تحریر میں کچھ حوالے دیے گئے ہیں ، چھ کے جواب ملاحظہ کیجیے بقایا حوالے غیر معتبر ہیں کہ فقہ حنفی کی معتبر کتب میں سے نہیں…اس کے بعد فقہ حنفی کے مزید حوالے بھی ہم نے لکھے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ فقہ حنفی کا معتبر و مختار فتوی کیا ہے....اس کے باوجود وہ اپنے چیلنج پے اڑے رہیں تو ہم افھام و تفھیم کے لیےحاضر ہیں
.
*#پہلے حوالے کی تحقیق:*
علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:
ظاہر ہےفتح القدیر سے اس کا بدعت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔‘‘’(بحر الرائق‘‘ (ص۲۱۰)
تحقیق:
اس حوالے سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ علامہ ابن نجیم بھی زبانی نیت کو بری بدعت لکھ گئے جبکہ امام محقق علامہ ابن نجیم کی اصل عربی عبارت اور پوری عبارت پیش ہے جس میں واضح لکھا ہے کہ الفاظ سے نیت بدعت حسنہ ہے
وَقَدْ اخْتَلَفَ كَلَامُ الْمَشَايِخِ فِي التَّلَفُّظِ بِاللِّسَانِ فَذَكَرَهُ فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي أَنَّهُ مُسْتَحَبٌّ وَهُوَ الْمُخْتَارُ وَصَحَّحَهُ فِي الْمُجْتَبَى وَفِي الْهِدَايَةِ وَالْكَافِي وَالتَّبْيِينِ أَنَّهُ يَحْسُنُ لِاجْتِمَاعِ عَزِيمَتِهِ وَفِي الِاخْتِيَارِ مَعْزِيًّا إلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ سُنَّةٌ وَهَكَذَا فِي الْمُحِيطِ وَالْبَدَائِعِ وَفِي الْقُنْيَةِ أَنَّهُ بِدْعَةٌ إلَّا أَنْ لَا يُمْكِنَهُ إقَامَتُهَا فِي الْقَلْبِ إلَّا بِإِجْرَائِهَا عَلَى اللِّسَانِ فَحِينَئِذٍ يُبَاحُ وَنُقِلَ عَنْ بَعْضِهِمْ أَنَّ السُّنَّةَ الِاقْتِصَارُ عَلَى نِيَّةِ الْقَلْبِ، فَإِنْ عَبَّرَ عَنْهُ بِلِسَانِهِ جَازَ وَنُقِلَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ عَنْ بَعْضِهِمْ الْكَرَاهَةُ وَظَاهِرُ مَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ اخْتِيَارُ أَنَّهُ بِدْعَةٌ فَإِنَّهُ قَالَ: قَالَ بَعْضُ الْحُفَّاظِ: لَمْ يَثْبُتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ طَرِيقٍ صَحِيحٍ وَلَا ضَعِيفٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الِافْتِتَاحِ أُصَلِّي كَذَا وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ بَلْ الْمَنْقُولُ أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «كَانَ إذَا قَامَ إلَى الصَّلَاةِ كَبَّرَ» وَهَذِهِ بِدْعَةٌ. اهـ.وَقَدْ يُفْهَمُ مِنْ قَوْلِ الْمُصَنِّفِ لِاجْتِمَاعِ عَزِيمَتِهِ أَنَّهُ لَا يَحْسُنُ لِغَيْرِ هَذَا الْقَصْدِ وَهَذَا لِأَنَّ الْإِنْسَانَ قَدْ يَغْلِبُ عَلَيْهِ تَفَرُّقُ خَاطِرِهِ فَإِذَا ذَكَرَ بِلِسَانِهِ كَانَ عَوْنًا عَلَى جَمْعِهِ، ثُمَّ رَأَيْته فِي التَّجْنِيسِ قَالَ وَالنِّيَّةُ بِالْقَلْبِ؛ لِأَنَّهُ عَمَلُهُ وَالتَّكَلُّمُ لَا مُعْتَبَرَ بِهِ وَمَنْ اخْتَارَهُ اخْتَارَهُ لِتَجْتَمِعَ عَزِيمَتُهُ. اهـ.وَزَادَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ أَنَّهُ لَمْ يُنْقَلْ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ أَيْضًا فَتَحَرَّرَ مِنْ هَذَا أَنَّهُ *#بِدْعَةٌ_حَسَنَةٌ* عِنْدَ قَصْدِ جَمْعِ الْعَزِيمَةِ، وَقَدْ اسْتَفَاضَ ظُهُورُ الْعَمَلِ بِذَلِكَ فِي كَثِيرٍ مِنْ الْأَعْصَارِ فِي عَامَّةِ الْأَمْصَارِ فَلَعَلَّ الْقَائِلَ بِالسُّنِّيَّةِ أَرَادَ بِهَا الطَّرِيقَةَ الْحَسَنَةَ لَا طَرِيقَةَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
خلاصہ:
زبان سے نیت کرنے میں مشائخ کے کلام میں اختلاف ہے مُنْيَةِ الْمُصَلِّي میں ہے کہ زبان سے نیت اچھی چیز ہے اور یہی قول مختار ہے اسی کو مجتبی میں صحیح قرار دیا، ہدایہ ، کافی اور تبیین میں ہے کہ یہی مستحسن و بہتر ہے…بعض علماء نے جو اسے سنت کہا ہے تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہین بلکہ مشائخ کا اچھا طریقہ مراد ہے…علامہ ابن ہمام کے کلام سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہ تو سنت رسول سے مروی ہے نہ صحابہ سے نہ ہی ائمہ سے تو یہ بدعت ہے....یعنی بدعت حسنہ ہے
[البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ,1/293]
.
*#دوسرے حوالے کی تحقیق:*
علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے ’’مجمع الروایات‘‘ سے نقل کیا ہے :
کہ زبان سے نیت بولنے کو بعض علماء نے حرام کہا ہے، اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کرنے والے کو سزا دی ہے۔‘‘ (شرح نور الایضاح:۵۶)
.
تحقیق:
اقوال نقل کرنا الگ معاملہ ہے...ان میں سے معتبر و مختار کونسا ہے یہ الگ معاملہ ہے...علامہ شرنبلالی کا معتبر و مختار قول ملاحظہ کیجیے:
قال الحافظ ابن القيم الجوزية رحمه الله تعالى: لم يثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح ولا ضعيف أنه كان يقول عند الافتتاح أصلي كذا ولا عن أحد من الصحابة والتابعين بل المنقول أنه كان صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة كبر وهذه بدعة. اهـ. وفي مجمع الروايات التلفظ بالنية كرهه البعض لأن ابن عمر رضي الله عنه أدب من فعله وأباحه البعض لما فيه من تحقيق عمل القلب وقطع الوسوسة وعمر رضي الله تعالى عنه إنما زجر من جهر به فأما المخافتة به فلا بأس بها فمن قال من مشايخنا إن التلفظ بالنية سنة لم يرد به سنة النبي صلى الله عليه وسلم بل سنة بعض المشايخ لاختلاف الزمان وكثرة الشواغل على القلوب فيما بعد زمن التابعين
خلاصہ:
ابن قیم جوزیہ کہتے ہین کہ زبانی نیت کسی صحیح یا ضعیف طریق سے رسول کریم سے ثابت نہیں اور نہ ہی صحابہ و تابعین سے مروی ہے تو یہ بدعت ہے…مجمع الروايات میں ہے کہ بعض علماء کے مطابق زبانی نیت مکروہ ہے کہ سیدنا عمر اس پر تادیبی کاروائی فرماتے تھے
لیکن
بعض علماء نے زبانی نیت کو جائز کہا ہے کہ اس سے وسوسے ختم ہوتے ہیں، سیدنا عمر تو جہر کرنے پر تادیبی کاروائی فرماتے تھے، بلاجہر زبانی نیت میں کوئی حرج نہیں البتہ جن علماء نے سنت کہا ہے تو اس سے سنت رسول مراد نہیں بلکہ مشائخ کا اچھا طریقہ مراد ہے
[مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ,page 84]
علامہ شرنبلالی کا زبانی نیت کو بدعت کہنے پر رد کرنا اسکی تاویل کرنا اور آخر میں اچھا طریقہ کہنے کو ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ یہی انکا مختار ہے
.
*#تیسرے حوالے کی تحقیق:*
امام ابن عابدین حنفی اپنی کتاب ) میں فرماتے ہیں:
زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔(رد المحتار‘‘ ۱/۲۷۹
تحقیق::
وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ،
ترجمہ:
دلی نیت کے وقت زبانی نیت کرنا مستحب و اچھا ہے اور یہی مختار ہے
[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,1/415]
علامہ امام ابن عابدین نے در مختار کے اس قول کو ثابت رکھا نفی نہ کی لیھذا بدعت حسنہ مراد ہے یہی مختار ہے...
.
*#چوتھے حوالے کی تحقیق:*
امام ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
’’الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جس طرح آپ کے کاموں میں کرنا لازم ہے، اسی طرح اتباع کام کے نہ کرنے میں بھی لازم ہے، جو شخص آپ کے نہ کیے ہوئے پر اڑا رہےگا وہ بدعتی ہے..۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ (۱/۴۱)
تحقیق:
حوالے میں تاثر دیا جا رہا ہے کہ امام ملا علی قاری بھی زبانی نیت کو گناہ بدعت لکھ گئے جبکہ اصل عبارت پڑہیے تو پتہ لگتا ہے کہ امام ملا علی قاری نے گناہ و بدعت کے قول کو قیل کہہ کر لکھا جو کہ ضعیف ہونے کی نشانی ہے اور معتبر قول کو یقال اور اکثرون سے لکھا ہے...یہ رہی اصل عربی عبارت
وَقِيلَ: لَا يَجُوزُ التَّلَفُّظُ بِالنِّيَّةِ فَإِنَّهُ بِدْعَةٌ، وَالْمُتَابَعَةُ كَمَا تَكُونُ فِي الْفِعْلِ تَكُونُ فِي التَّرْكِ أَيْضًا، فَمَنْ وَاظَبَ عَلَى فِعْلٍ لَمْ يَفْعَلْهُ الشَّارِعُ، فَهُوَ مُبْتَدِعٌ. وَقَدْ يُقَالُ: نُسَلِّمُ أَنَّهَا بِدْعَةٌ لَكِنَّهَا مُسْتَحْسَنَةٌ......فَالْأَكْثَرُونَ عَلَى أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَهُمَا مُسْتَحَبّ
یعنی:
(قیل)کہ زبانی نیت بدعت ہے اور( یقال )کہا گیا ہے کہ بدعت تو ہے مگر بدعت حسنہ، اکثر علماء اس بات پر ہیں کہ دلی نیت اور زبانی نیت دونوں کرنا مستحب و اچھا ہے
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,1/42]
.
بَلِ النِّيَّةُ بِاللِّسَانِ مِنَ الْبِدْعَةِ الْحَسَنَ
ترجمہ:
بلکہ زبانی نیت بدعت حسنہ ہے
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1387]
.
*#پانچھویں حوالے کی تحقیق:*
امام ابن ہمام حنفی فرماتے ہیں:
بعض حفاظ نے کہا ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے کہ میں فلاں نماز ادا کر رہا ہوں اور نہ ہی صحابہ یا تابعین میں سے کسی سے یہ منقول ہے۔ بلکہ جو منقول ہے وہ یہ کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے، اور یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔ (فتح القدیر شرح الہدایہ‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷)
تحقیق:
امام ابن ہمام نے جو بدعت لکھا تو اسکی تاویل و معنی علماء نے یہ لیے کہ بدعت حسنہ ہے...علامہ ابن نجیم نے علامہ ابن ہمام کی عبارت نقل کی اور اسکے تاویل و معنی میں لکھا کہ:
وهذه بدعة انتهى أي: حسنة
ترجمہ:
یہ(زبانی نیت) بدعت ہے یعنی اچھی بدعت ہے
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,1/188]
.
*#چھٹے حوالے کی تحقیق:*
طحطاوی حنفی ’’میں لکھتے ہیں:
’’صاحب در مختار‘‘ کے قول: ’’یعنی سلف نے اس کو پسند کیا ہے‘‘، اس میں اشارہ ہے اس امر کا کہ حقیقت میں نیت کے ثابت ہو نے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ زبان سے بولنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ وائمہ اربعہ سے، یہ تو محض بدعت ہے۔‘(‘شرح در مختار‘‘ (۱/۱۹۴)
تحقیق:
درمختار کا مختار قول کیا ہے ملاحظہ کیجیے
وَالتَّلَفُّظُ) عِنْدَ الْإِرَادَةِ (بِهَا مُسْتَحَبٌّ) هُوَ الْمُخْتَارُ،
ترجمہ:
دلی نیت کے وقت زبانی نیت کرنا مستحب و اچھا ہے اور یہی مختار ہے
[ در مختار مع رد المحتار ,1/415]
.
علامہ طحطاوی کا مختار قول بھی ملاحظہ کیجیے
ولا عن أحد من الصحابة والتابعين" زاد ابن أميرحاج ولا عن الأئمة الأربعة قوله: "وهذه بدعة" قال في البحر فتحرر من هذه الأقوال أنه بدعة حسنة
یعنی:
زبانی نیت رسول کریم صحابہ کرام تابعین عظام ائمہ سے مروی نہیں، یہ بدعت ہے یعنی بدعت حسنہ ہے
[حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح221 ,page 220]
.
*#فقہ_حنفی_کے_مزید چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے:*
فإن فعله لتجتمع عزيمته عليه فهو حسن
ترجمہ:
اگر زبانی نیت دل کی نیت کو پختہ کرنے کے لیے کرے تو اچھا ہے
[منحة السلوك في شرح تحفة الملوك ,page 121]
وَضَمُّ التَّلَفُّظِ إلَى الْقَصْدِ أَفْضَلُ) لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِحْضَارِ الْقَلْبِ لِاجْتِمَاعِ الْعَزِيمَةِ بِهِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: النِّيَّةُ بِالْقَلْبِ فَرْضٌ، وَذِكْرُهَا بِاللِّسَانِ سُنَّةٌ، وَالْجَمْعُ بَيْنَهُمَا أَفْضَلُ
یعنی:
دلی نیت کے ساتھ زبانی نیت کرنا افضل ہے کہ دلی ارادہ پختہ ہوتا ہے، امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ دلی نیت فرض اور زبانی نیت سنت(یعنی مشائخ کا اچھا طریقہ) ہے اور دونوں نیتیں کرنا افضل ہے
[مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/85]
.
واختلف كلامهم في التلفظ فرجح في منية المصلي تبعا للمجتبى وغيره استحبابه وجعله في اختياره تبعا للبدائع والمحيط سنة كذا عن محمد وفي الشرح والكافي أنه أحسن....وهذه بدعة انتهى أي: حسنة
یعنی:
زبانی نیت کے متعلق مشاءخ کے کلام میں اختلاف ہے، منیہ و مجتبی بدائع محیط وغیرہ میں راجح و مختار اس کو کہا ہے کہ یہ اچھا ہے، یہ بدعت ہے یعنی اچھی بدعت ہے
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,1/188]
.
إلَّا أَنَّ الذِّكْرَ بِاللِّسَانِ مَعَ عَمَلِ الْقَلْبِ سُنَّةٌ فَالْأَوْلَى أَنْ يَشْغَلَ قَلْبَهُ بِالنِّيَّةِ وَلِسَانَهُ بِالذِّكْرِ وَيَدَهُ بِالرَّفْعِ،
مگر یہ کہ زبانی نیت دلی نیت کے ساتھ اچھا ہے کہ دل کو نیت کے ساتھ مشغول کرنا، زبان کو تلفظ کے ساتھ مشغول کرنا اور ہاتھوں کو اٹھانے کے ساتھ مشغول کرنا ہے
[الجوهرة النيرة على مختصر القدوري ,1/48]
.
والنية هي الإرادة والشرط أن يعلم بقلبه أي صلاة يصلي أما الذكر باللسان فلا معتبر به ويحسن ذلك لاجتماع عزيمته
ترجمہ:
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں کہ اسے پتہ ہو کہ کونسی ، کس وقت کی نماز پڑھ رہا ہے، زبانی نیت کا(فرض ہونے میں) اعتبار نہیں اور زبانی نیت اچھی ہے کہ دلی ارادے کو پختہ کرتی ہے
[الهداية في شرح بداية المبتدي ,1/46]
(وَالتَّلَفُّظُ مُسْتَحَبٌّ) لِمَا فِيهِ مِنْ اسْتِحْضَارِ الْقَلْبِ
ترجمہ:
زبانی نیت کرنا مستحب ہے کہ اس سے دل حاضر ہوتا ہے
[درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/62]
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: النِّيَّةُ بِالْقَلْبِ فَرْضٌ، وَذِكْرُهَا بِاللِّسَانِ سُنَّةٌ، وَالْجَمْعُ بَيْنَهُمَا أَفْضَلُ
ترجمہ:
امام محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ دلی نیت فرض اور زبانی نیت سنت(یعنی مشائخ کا اچھا طریقہ) ہے اور دونوں نیتیں کرنا افضل ہے
[الاختيار لتعليل المختار ,1/48]
كره بعض مشايخنا النطق باللسان، ورواه الآخرون به.
وفي " المحيط ": النية شرط لصحة الصلاة، وهي إرادتها بالقلب فرض والذكر باللسان سنة، فينبغي أن يقول: اللهم إني أريد صلاة كذا
یعنی:
بعض مشائخ نے زبانی نیت کو مکروہ فرمایا باقی علماء و مشائخ نے جائز فرمایا ہے، محیط مین ہے کہ دلی نیت فرض ہے زبانی نیت مشائخ کا اچھا طریقہ ہے تو مناسب ہے یوں نیت کرے کہ فلاں نماز کی نیت کرتا ہوں
[البناية شرح الهداية ,2/138]
.
لَكِنَّهُ حَسَنٌ لِاجْتِمَاعِ عَزِيمَتِهِ
ترجمہ:
لیکن دلی نیت کو پختہ کرنے کے لیے زبانی نیت کرنا اچھا ہے
[العناية شرح الهداية ,1/266]
.
فَإِنْ فَعَلَهُ لِتَجْتَمِعَ عَزِيمَةُ قَلْبِهِ فَهُوَ حَسَنٌ
ترجمہ:
اگر دلی ارادے کو پختہ کرنے کے لیے زبانی نیت کرے تو اچھا ہے
[فتاوی عالمگیری،الفتاوى الهندية ,1/65]
.
فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہین کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہین وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے.
لیھذا اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں
پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے
جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو بہت بڑا اتحاد ہوسکتا ہے..
.
حدیث پاک میں ہے کہ:
وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)
یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
حدیث پاک میں ہے:
من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء
ترجمہ:
جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی
(مسلم حدیث نمبر1017)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.====================
ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:
①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت گناہ کہلائے گا
.
②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟
.
③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے
.
④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہین ان مین نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہین... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہین مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..
.=====================
جب نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟
.
جواب اور #چیلنج:
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہین کہ جو کام صحابہ کرام نے نہین کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہین کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نا کیا ہو... چیلنج چیلنج...
کچھ لوگ کہتے ہین جو سنت نہین وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے..
.
پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟
ایات احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:
.
المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ
فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:
بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت کے"
(فتح الباری 13/253
حاشیہ اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64
مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.==================
نوٹ:
صحابہ کرام کا فتویٰ:
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)
یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے
سنی وہابی نجدی شیعہ اہل ھدیث وغیرہ تمام کی کتابوں.میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.======================
خلاصہ:
خلاصہ یہ ہے کہ
①سنت کے علاوہ جائز، مستحب بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے...اس کو بھلانا،نظر انداز کرنا تفرقہ گمراہی اختلاف و انتشار کا باعث ہے
②ہر نئ چیز بدعت نہین ہوتی...جو سنت نا ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نا ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل اسلام میں موجود نہ ہو
③میلاد فاتحہ اذان سے پہلے درود، بعد نماز جنازہ دعا، سوئم چہلم عرس ، زبانی نیت وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہین وہ بدعت نہین کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ذرا غور کیجیے گا کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت مین موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہین مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے..
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
00923468392475