کیا مصیبت اور پریشانی کے وقت انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنا جائز ہے ؟
کیا مصیبت اور پریشانی کے وقت انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنا جائز ہے ؟
*جواب:*
انبیاے کرام علیھم السلام اور اولیاے عظام علیھم الرحمہ سے مدد طلب کرنا بالکل جائز ہے, جبکہ یہ عقیدہ ہو کہ حقیقی طور پر مدد تو صرف اللہ عزوجل ہی فرماتا ہے اور انبیاء و اولیاء اللہ عزوجل کی عطا سے اور اس کی دی ہوئی طاقت سے مدد فرماتے ہیں.
اور ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہوتا ہے جو کسی بھی نبی یا صحابی یا ولی سے مدد طلب کرتا ہے.
انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنا قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہے, جن میں سے کچھ دلائل درج ذیل ہیں :
*🌹قرآنِ پاک سےدلائل🌹*
(1) - اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
*"فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَذٰلِكَ ظَهِيْرُُ"*
(پارہ 28'سورہ تحریم,آیت نمبر4)
ترجمہ: تو بے شک اللہ ان کا (یعنی اپنےنبی کا ) مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں.
(2)-ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
*"اِنَّمَاوَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا "*
(پارہ 6'سورہ مائدہ آیت نمبر55)
ترجمہ: (اے مسلمانو) تمہارا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے.
*فائدہ:*
اس آیت میں اور اس سے پہلی والی آیت میں اللہ عزوجل نے واضح طور فرمایا کہ مددگار اللہ بھی ہے اور اس کے پیارے رسول علیہ السلام بھی ,نیک اور ایمان والے بندے اور فرشتے بھی مددگار ہیں ,اگر غیراللہ کا مطلقاً مددگار ہونا شرک ہوتا تو ہرگز اللہ عزوجل اپنے نبی, نیک اور ایمان والے بندوں اور فرشتوں کو مددگار نہ فرماتا.
لہذا ثابت ہوا کہ انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنے کو شرک کہنا گویا اس بات کا دعویٰ کرنا ہے کہ اللہ عزوجل نے خود شرکیہ آیات قرآنِ پاک میں نازل فرمائیں اور مسلمانوں کو شرک کی تعلیم دی, حالانکہ سوائے بدمذھبوں کے کوئی مسلمان ایسی ناپاک اور خبیث جسارت (جرات ) نہیں کرسکتا تو تعجب ہے ایسے لوگوں پر جو مسلمانی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور انبیاء و اولیاء سے مدد طلب کرنے کو شرک بھی بتاتے ہیں.
(3)-ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
*"قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰهِ"*
(پارہ 3'سورہ آلِ عمران آیت نمبر52)
ترجمہ: (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بولے کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف, حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں.
*فائدہ:*
اس آیت میں بالکل واضح طور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنےحواریوں سے مدد طلب فرمائی ,تو اگر غیراللہ سے مدد طلب کرنا شرک ہوتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز اپنے حواریوں سے مدد طلب نہ فرماتے لہذا جو یہ کہے کہ غیراللہ سے مدد طلب کرنا شرک ہے گویا وہ اللہ عزوجل کے معصوم نبی,حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مشرک بتاتا ہے لہذا کوئی بھی مسلمان غیراللہ سے مدد طلب کرنے کو شرک نہیں کہہ سکتا.
*🌹احادیثِ مبارکہ سےدلائل🌹*
(1)-حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے, آپ فرماتے ہیں :
*"قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ وسلم) سَلْ فَقُلْتُ اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ فَقَالَ اَوْ غَیْرَ ذٰلِکَ فَقُلْتُ ھُوَ ذَاکَ, قَالَ فَاَعِنِّیْ عَلیٰ نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْد "*
یعنی (ایک مرتبہ ) مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
*مانگ ؛*
پس میں نے عرض کی
"میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت (اپنا پڑوس) عطا فرمائیں".
پھر فرمایا :
کچھ اور (مانگو) !
تو میں نے عرض کی
"صرف یہی (چاہیے )"
آپ علیہ السلام نےفرمایا :
"توکثرتِ سجود کے ساتھ اپنے نفس کے خلاف میری مدد کر".
*(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب فضل السجود جلد1 صفحہ نمبر 193 قدیمی کتب خانہ, سننِ ابی داؤدجلد1, المعجم الکبیر جلد5 )*
*حدیث مبارکہ کی تشریح:*
اس حدیثِ مبارکہ سے یہ بات اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَاَبْیَنُ مِنَ الْاَمْس(یعنی سورج سے زیادہ روشن و ظاہر اور گزشتہ دن سے زیادہ واضح ) ہوگئی کہ غیراللہ (انبیاء و اولیاء) سے مدد مانگنا بالکل جائز ہے اور شرک ہرگز نہیں, اگر غیراللہ سے مدد مانگنا شرک ہوتا تو کبھی بھی حضور علیہ السلام حضرت ربیعہ سے اپنے بارے میں یہ نہ فرماتے کہ مجھ سے مانگو اور نہ حضرت ربیعہ جنت میں پڑوس مانگتے
اب اس حدیثِ مبارکہ کے تحت چند معتبر علماءکی تشریحات کو درج کیا جاتا ہے چنانچہ :
1- شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
" از اطلاق سوال کہ فرمودش بخواہ تخصیص نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ھمہ بدست ھمت و کرامت اوست صلی اللہ علیہ وسلم ھرچہ خواھد وکراخواھد باذن پروردگار خود دھد "
یعنی مطلق سوال سے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا : مانگ, اور کسی خاص شئی کو مانگنے کی تخصیص نہیں فرمائی, معلوم ہوتا ہے کہ تمام معاملہ آپ کے دستِ اقدس میں ہے, جو چاہیں جسے چاہیں اللہ عزوجل کے اذن سے عطا فرمائیں.
*(اشعۃاللمعات جلداول صفحہ 396 مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)*
2- علامہ ملاعلی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:
"یُؤْخَذُ مِنْ اِطْلاَقِہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اْلاَمْرَ بِسؤَالٍ اَنّ اللّٰہَ تَعَالیٰ مَکَّنَہُ مِنْ اِعْطَاءِ کُلّ مَا اَرَادَ مِنْ خَزَائِنِ الْحَقّ "
یعنی حضور علیہ السلام نے مانگنے کا مطلقاً حکم دیا جس سے یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے حضورعلیہ السلام کو عام قوت عطا فرمائی ہے کہ خدا کے خزانوں سے جو چاہیں عطا فرمائیں .
*(مرقاۃالمفاتیح کتاب الصلوۃ باب السجود و فضلہ ,الفصل الاول جلد 2 صفحہ 615 مکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ)*
3- امامِ اہلسنت ,مجددِدین وملت, امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"الحمدللہ یہ جلیل و نفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہر جملے سے وہابیت کش ہے, حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقاً بلاقید و بلاتخصیص ارشاد فرمانا: سَلْ ؛ مانگ کیا مانگتا ہے, جانِ وہابیت پر کیسا پہاڑ ہے, جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام ہر قسم کی حاجت روائی فرما سکتے ہیں, دنیا و آخرت کی سب مرادیں حضور علیہ السلام کے اختیار میں ہیں جب بلاتقیید ارشاد ہوا :
مانگ کیا مانگتا ہے یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے,
*گر خیریت دنیا و عقبیٰ آرزو داری*
*بدرگاھش بیا و ھرچہ میخواھی تمناکن*
(یعنی اگر تو دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کی بارگاہ میں آ اور جو چاہتا ہے مانگ لے.)
یہ شعر حضرت شیخ محقق علیہ الرحمہ کا ہےکہ قصیدہ نعتیہ حضور پرنور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا ہے.
پھر اس حدیثِ جلیل میں سب سے بڑھ کر جانِ وہابیت پر یہ کیسی آفت کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پرحضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ خود حضور سے جنت مانگتے ہیں کہا :
*"اسئلک مرافقتک فی الجنۃ "*
میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں رفاقتِ والا عطا ہو.
وہابی صاحبو ؛ یہ کیسا کھلا شرکِ وہابیت ہے جسے حضور مالکِ جنت علیہ افضل الصلوۃ و التحیۃ قبول فرما رہے ہیں.
*(ملخصاًفتاوی رضویہ جلد 30' صفحہ نمبر 494 '995' 996 رضا فاؤنڈیشن لاہور )*
(2)- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
*"اُطْلُبُوْا الْخَیْرَ وَالْحَوَائِجَ مِنْ حِسَانِ الْوُجُوْہ "*
یعنی تم بھلائی اور حاجتیں ان لوگوں سے مانگو جن کے چہرے (اللہ کی عبادت سے ) روشن ہیں.
*(المعجم الکبیر جلد 11 صفحہ 81 مکتبہ ابن تیمیہ القاہرہ)*
*فائدہ:*
اس حدیثِ مبارکہ میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن چہرے والوں سے بھلائی اور حاجتیں مانگنے کا حکم دیا , اگر غیراللہ سے مدد اور حاجتیں مانگنا شرک ہو تو معاذاللہ حضور علیہ السلام پر الزام آئے گا کہ آپ علیہ السلام نے اپنے امتیوں کو شرک کی تعلیم دی ہے حالانکہ آپ علیہ السلام اس سے معصوم ہیں.
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہرگز شرک نہیں اور جو اس عقیدے کو مانتے ہیں وہی برحق ہیں اور وہی حقیقی اہلسنت ہیں جن کے جنتی ہونےکی بشارت خود نبی پاک علیہ السلام نے عطا فرمائی اور باقی جو اہلسنت ہونے کا دعویٰ تو کریں مگر غیراللہ سے مدد مانگنے کو شرک کہیں وہ ہرگز اہلسنت نہیں اور نہ حق پر ہیں بلکہ قرآن و سنت کے منکر اور دھوکے باز, ایمان کے لٹیرے ہیں.
سیدی اعلحضرت علیہ الرحمہ نے ایک شعر میں کیا خوب فرمایا :
*حاکم حکیم دادو دوا دیں یہ کچھ نہ دیں*
*مردود یہ مراد کس آیت خبرکی ہے*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
30/01/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
آپ کا سوال نمبر 33 کا جواب درست ہے, بندہ ناچیز اس کی تائید و توثیق کرتا ہے.
*ابوالحسنین مفتی محمد عارف محمود خان معطر قادری عطاری*