یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

*لڑکی کی محبت نے ایک عالِم کو کہاں پہنچا دیا ؟*




*لڑکی کی محبت نے ایک عالِم کو کہاں پہنچا دیا ؟*


ایک ایسا درد ناک واقعہ جسے پڑھ کے خوفِ خدا میں آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں
😭😭😭😭😭😭 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی الک واصحابک یا حبیب اللہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ نَّبِیِّکَ الْعَظِیْمِ وَرَسُوْلِکَ الْکَرِیْمِ وَالدَّاعِیْ اِلَی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْم
     منقول ہے کہ بغداد میں ایک شخص بہت بڑا عالم تھا ۔لوگ حصولِ علم اور اصلاح کے شوق میں اس کے پاس آتے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اس نے حجِ بیت اللہ اور روضۂ رسول صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا قصد کیا تو اپنے طلبہ کو بھی ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا اور ان سے عہد لیا کہ وہ اللہ عزوجل پر توکل کرتے ہوئے چلیں گے ۔دوران ِسفر یہ لوگ جب ایک گر جاگھر کے قریب پہنچے توگرمی اور پیاس کی شدت سے نڈھال تھے۔ طلبہ نے عرض کیا کہ'' اے ہمارے استا د گرامی ! ہم دن ٹھنڈا ہونے تک اس گر جا کے سائے میں آرام کرلیتے ہیں پھران شاء اللہ عزوجل دوبارہ سفرپر روانہ ہوجائیں گے۔'' استا د نے کہا:'' جیسے تمہاری مرضی ۔'' 
    چنانچہ یہ لوگ اس گرجا کی طرف چل دئیے او راس کی دیوار کے سائے میں پڑاؤ ڈال دیا ۔ گرمی سے بے حال لوگوں کو سایہ نصیب ہوا تو وہ جلد ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے مگر استا ذ نہ سویا۔ وہ انہیں سوتا چھوڑ کر وضو کے لئے پانی کی تلاش میں نکل پڑا۔ اس وقت اس کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ کسی طرح پانی مل جائے۔ ابھی وہ گرجاکے سائے میں پانی تلاش کررہاتھا کہ اس کی نظر ایک کم سن لڑکی پر پڑ ی جو چمکتے ہوئے سورج کی طر ح خوبصورت تھی۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی شیطان اس استاذ پر غالب آیا اور وہ لڑکی اس کے دل ودماغ پر چھا گئی اور وہ وضو اور پانی کو بھول کراس کی فکر میں لگ گیا۔

     اس نے آہستگی سے گرجاکا دروازہ کھٹکھٹا یا تو ایک راہب باہر نکلا اس نے پوچھا کہ'' تم کون ہو ؟ ''اس نے اپنا تعارف کروایا کہ میں فلاں عالم ہوں ۔راہب نے پوچھا:'' اے مسلمانوں کے فقیہ کیاچاہے؟''جواب دیا'' اے راہب! مجھے گرجاکی چھت سے ابھی ایک لڑکی دکھائی دی تھی وہ تمہاری کیا لگتی ہے ؟'' راہب نے کہا کہ'' وہ میری بیٹی ہے مگر تم اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو؟ ''استاذنے کہا:''میں چاہتاہوں کہ تم اس کی شادی میرے ساتھ کردو۔'' راہب بولا کہ ''ہمارے دین میں ایسا کرنا جائز نہیں اگر جائز ہوتا تو میں اس سے پوچھے بغیر اسے تمہاری زوجیت میں دے دیتا حالانکہ میں نے اپنے آپ سے عہد کیاہے کہ اس کی شادی اسی کی پسند سے کرواؤں گا، میں اسے تمہارے بارے میں بتاتاہوں اگر وہ تمہیں اپنے لئے پسند کرے تو میں اسے تمہاری زوجیت میں دے دوں گا ۔''
 استاذنے کہا کہ'' یہ تو بڑی خو شی کی بات ہے ،مہربانی فرما کراس کے پاس جائیے اور پوچھئے ۔''
    وہ راہب اپنی بیٹی کے پاس گیا او رسارا ماجرا بیان کیا۔ ادھر یہ استاذان کی باتیں سن رہا تھا، وہ لڑکی بولی:'' ابا جان !آپ میرا نکاح اس سے کس طرح کر سکتے ہیں حالانکہ میں عیسائی ہوں اور وہ مسلمان ہے ،یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ نصرانیت میں داخل ہوجائے۔'' راہب نے پوچھا:'' اگر وہ نصرانی ہوجائے تو کیا تم اس سے شادی کرلوگی؟''لڑکی بولی : ''ہاں کرلوں گی۔''
     وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استاذ کی بے تابی بڑھتی چلی جارہی تھی ،اِدھر اس کے طلبہ بے خبر سورہے تھے۔آخر کار استاذ لڑکی کی طر ف متو جہ ہوکر بولا:'' میں دین اسلام چھوڑ کر نصرانی ہوگیاہوں۔'' لڑکی بولی کہ'' چونکہ یہ عزت ووقار کی شادی ہے لہذا حقوقِ زوجیت اور مہرکی ادائیگی ضروری ہے تم حق کہاں سے اداکروگے کیونکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم فقیر ہو،پھر بھی اگر تم ان خنزیرو ں کو پورا ایک سال چَراؤتویہی میرا مہر ہوگا ۔'' وہ بولا : ''ٹھیک ہے مگر میری بھی ایک شرط ہے کہ تم اس دوران اپنا چہرہ مجھ سے نہیں چھپاؤگی تا کہ میں صبح وشام اسے دیکھتا رہوں۔'' لڑکی بولی :'' مجھے منظور ہے ۔'' تو اس نے خطبہ دینے والا عصا اٹھایا اور خنزیروں کی طر ف چل دیا تا کہ عصا کے ذریعے انہیں چراگاہ تک لے جائے ۔
جب طلبہ نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے استا ذ کو تلاش کرنے لگے۔ جب وہ تلاشِ بسیار کے باوجود نہ ملا توانہوں نے راہب سے اس کے بارے میں پوچھا تو جواباًاس نے ساری کہانی سنائی۔یہ افسوس ناک خبر سن کر طلبہ میں کہرام مچ گیا،کچھ غش کھاکر گر گئے اور کچھ آہ وبکا کرنے لگے ۔پھر انہوں نے راہب سے کہاکہ'' اب وہ کہا ں ہے ؟'' راہب نے بتایا کہ'' وہ خنز یر چرا رہا ہے ۔''راوی کہتے ہیں کہ'' پھر ہم اس کی طرف چل دئیے تو اسے اسی عصا سے سہارا لئے دیکھا جس کے سہارے وہ خطبہ دیا کرتا تھا ،وہ خنزیرو ں کو ادھر ادھر جانے سے روک رہا تھا۔'' ہم نے اس سے کہا کہ ''اے ہمارے سردار ! یہ تم پر کیسی آزمائش آگئی ؟''پھر ہم اسے قرآن پاک ، اسلام اور حضورِپاک ،صاحبِ لولاک،سیّاحِ افلاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل یا د دلانے لگے اور اسے قرآن وحدیث کے فرامین سنائے تو اس نے کہا کہ'' مجھ سے دور ہوجاؤ، تم جو کچھ یاد دلارہے ہو وہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں مگر مجھ پر اللہ ربُّ العالمین عزوجل کی طر ف سے آزمائش نازل ہوئی ہے۔''ہم نے اسے اپنے ساتھ لے جانے پر بہت زور دیا مگرناکام رہے۔    آخرِ کار ہم اس کے حال پر کفِ افسوس ملتے ہوئے مکہ مکرمہ کی طر ف چل دئیے اور حج ادا کرنے کے بعد واپس بغداد کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب ہم اسی مقام پرپہنچے تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا کہ'' آؤ دیکھتے ہیں کہ اس پر کیا گزری، شاید وہ نادم ہو کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تو بہ کر چکا ہو اور اپنی حالت سے لوٹ آیا ہو۔'' ہم اس کے پاس پہنچے تو اسے اسی حالت پر پایا وہ خنز یر وں کی دیکھ بھال کر رہا تھا ہم نے اسے سلام کیا اور نصیحت یاددلائی اور قرآن پڑھ کر سنایا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ہم ایک بار پھر حسرت زدہ دل لئے واپس ہولئے۔
    جب ہم گرجا گھر سے تھوڑی دور پہنچے تو ہم نے گر جے کے پیچھے سے ایک سائے کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا، وہ شخص چیخ چیخ کر ہمیں ٹھہرنے کا کہہ رہا تھا ۔ ہم رک گئے قریب آنے پر معلوم ہوا کہ ہمارے وہی استا ذ ہماری جانب آرہے ہیں جب وہ ہم سے آکر ملے تو بولے :'' میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تو بہ کرچکاہو ں اور اپنی پچھلی حالت سے رجو ع کرچکاہوں، یہ آزمائش میری ایک ایسی خطا کے سبب تھی جو میرے اور میرے رب عزوجل کے درمیان تھی اس نے میری اس خطاکے سبب مجھ پرعتاب فرمایا تھا، یہ آزمائش جو تم نے دیکھی وہ اسی سبب سے تھی۔'' ہم اس پر بہت خوش ہوئے اور بغداد لوٹ آئے اور ہمارے استاذ پہلے سے زیادہ عبادات اور مجاہدات میں مصروف ہوگئے ۔
    ایک دن ہم ان کے گھر پر ان سے علم دین حاصل کررہے تھے کہ ہم نے ایک عورت کو درو ازہ کھٹکھٹاتے دیکھا تو ہم باہر نکلے اور پوچھا کہ'' اے خاتو ن !کیا کام ہے ؟'' اس نے کہا کہ'' میں شیخ سے ملنا چاہتی ہوں ان سے کہوکہ فلاں راہب کی بیٹی آپ کے ہاتھ پرمسلمان ہونے آئی ہے۔'' تو شیخ نے اسے اند ر آنے کی اجازت دیدی وہ گھر میں داخل ہو کر بولی :''اے میرے سردار ! میں اپ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے آئی ہوں۔'' 


    شیخ نے پوچھا کہ'' تمہارا قصہ کیاہے؟'' تو اس نے شیخ کو بتایا کہ ''جب آپ وہاں سے چلے آئے تو مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوا اور میں سوگئی تومیں نے خواب میں حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کودیکھا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمارہے تھے کہ'' دینِ محمدی علی صاحبہاالصلوۃ والسلام کے علاوہ کو ئی دین سچانہیں ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی پھر فرمایا کہ'' اللہ تعالیٰ نے تیرے ذریعے اپنے ایک بندے کو آزمایا ہے ۔'' چنانچہ اب میں آپ کے پاس آگئی ہوں اور آپ کے سامنے گواہی دیتی ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔'' شیخ اس عورت کے اپنے ہاتھ پر مسلمان ہونے کی وجہ سے بہت خوش ہوئے ۔ پھر انہوں نے اس سے اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے مطابق نکاح کرلیا ۔
     جب ہم نے ان سے اس خطا کے بارے میں پوچھا جواُن کے اور اللہ عزوجل کے درمیان راز تھی تو انہوں نے بتا یا کہ'' میں کسی جگہ سے گزررہاتھا کہ ایک نصرانی آکر مجھ سے لپٹ گیا میں نے اس سے کہا کہ ''تجھے پر اللہ کی لعنت ہومجھ سے دور ہو جا۔''اس نے پوچھا :''کیوں ؟'' تومیں نے کہا کہ'' میں تجھ سے بہتر ہوں۔'' تو نصرانی میری طرف متو جہ ہو کر بو لا کہ'' تمہیں کیا پتا کہ تم مجھ سے بہتر ہو کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا اللہ عزوجل کے نزدیک کیا مقام ہے کہ تم یہ بات کہہ رہے ہو؟ ''پھر مجھے بعد میں خبر ملی کہ وہ نصرانی مسلمان ہو چکا ہے اور کامل مسلمان ہو کر عبادت گزار بن چکا ہے ۔جبکہ مجھے میری خطا کے سبب وہ سزادی گئی جو تم دیکھ چکے ہو۔''
    نَسْأَلُ اللہَ الْعَافِیَّۃَفِی الدُّنْیَاوَالْآخِرَۃِ یعنی ہم اللہ عزوجل سے دنیا وآخرت میں عافیت کاسوال کرتے ہیں ۔
یَااَللہ عزوجل!
ایمان پہ دے موت مدینے کی گلی میں
مدفن میرامحبوب کے قدموں میں بنادے
یَارَسُوْلَ اللہ صلي الله عليه وسلم!
مجھے ہریالے گنبدکے تلے قدموں میں موت آئے
سلامت لے کے جاؤں دین وایماں یارسول اللہ
(بحر الدموع مترجم بنام آنسوؤں کا دریا ص 128 تا 133،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
    ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ سے حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں اور اس کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہیں،بے شک حد سے بڑھنے والے ہی اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف رہتے ہیں۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ !ہم تیری بارگاہ میں تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا وسیلہ پیش کرتے ہیں، اور ہمارا ایمان ہے کہ تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تیری بارگاہ میں ہم عاصیوں اور گناہگاروں کی شفاعت فرمائيں گے۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ !ہم کو خوف سے امن عطا فرما دے، ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر تو بھی صرف انہیں ہی اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے گاجو تیرے نیک بندے ہیں توپھر ہمیں بتا کہ ہم جیسے گناہ گاروں کو کون قبول کریگا؟ یااللہ عَزَّوَجَلَّ !اگر تو اطاعت گزار بندوں پر ہی رحم وکرم کی بارش نازل فرمائے گاتو کوتاہی کرنے والوں اور عاصیوں پر کون کرم کریگا؟ یااللہ عَزَّوَجَلَّ !ہم اپنے نفسوں کی برائی کو اچھی طرح جان چکے لہٰذا ہم پر نظرِ کرم فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ !ہم پر ایسا فضل وکرم فرما جو ہمیں تیری ذات کے سوا ہر چیز سے بے پرواہ کر دے، ہمیں اطاعت کی توفیق ، معصیت سے نفرت اور پُرخلوص نیت کی دولت سے نواز دے،ہمیں اپنی ایسی رحمت سے نوازکہ جو ہماری کمی اور کوتاہی کو پورا کر دے اور ہمارے فقر کو غنا سے بدل دے، ہمارے گناہوں کو مٹا دے اور ہماری قدر ومنزلت میں اضافہ فرما دے، ہمیں اپنے اور اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مبارک فرامین سن کر ان سے نفع حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمااور ہم خطاکاروں کے حق میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی شفاعت قبول فرماکہ جس دن مال کام آئے گا، نہ اولاد۔اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے!ہم پر اپنی خاص رحمت نازل فرما۔(آمِیْن)
سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔ 
طالبِ دعا: 
محمد ذیشان عطاری