حاملہ بیوی کو طلاق
حاملہ بیوی کو طلاق.........؟؟
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
حاملہ خاتون کو طلاق دی گئی کیا واقع ہو گئی؟
جواب:
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ
عام طور پر سننے کو ملتا ہے کہ حاملہ بیوی کو طلاق واقع نہیں ہوتی جبکہ شرعی لحاظ سے حاملہ کو طلاق دی تو طلاق واقع ہوجاتی ہے
.
القرآن:
وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ
اور حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ حمل جن لیں
(سورہ طلاق آیت 4)
اس آیت مبارکہ سے پہلے طلاق دینے کا تذکرہ ہے پھر اس کے بعد اس آیت میں مطلقہ وغیرہ کی عدت کا ذکر ہے....اگر حاملہ کو دی گئ طلاق واقع نہ ہوتی تو عدت کس بات کی.....؟؟ عدت کا بیان دلیل ہے کہ حاملہ کو دی گئ طلاق واقع ہو جاتی ہے
.
الحدیث:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا "
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو حیض (ماہ واری،مینسزز)میں طلاق دی، یہ معاملہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا،آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے ارشاد فرمایا کہ انہیں کہو کہ رجوع کرلیں پھر پاکیزگی کی حالت میں یا حمل کی حالت میں طلاق دیں
(مسلم حدیث1471 نحوہ فی ابی داود حدیث2181 و فی ترمذی حدیث1176)
اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ حیض میں بھی طلاق ہوجاتی ہے اگرچہ نہ دینی چاہیے، حیض میں طلاق واقع نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رجوع کا کیسے فرماتے،رجوع تو تب بنتا ہے جب طلاق رجعی دی ہو
نیز
نبی پاک نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ پاکی میں یا حمل میں طلاق دو، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حاملہ کو طلاق واقع ہوجاتی ہے
.
لیھذا عوامی تاثر کہ حمل میں طلاق نہیں ہوتی کم علمی یا جہالت پر مبنی ہے، شرع شریف کے مطابق حیض طہر حمل ہر حال میں طلاق واقع ہو جاتی ہے
.
وطلاق الحامل يجوز
حاملہ بیوی کو طلاق دینا جائز ہے
[البناية شرح الهداية ,5/291]
.
يَقَعُ طَلاَقُ الْحَامِل بِاتِّفَاقِ الفقهاء
حاملہ بیوی کو طلاق دی تو واقع ہو جائے گی،اس پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے
[الموسوعة الفقهية الكويتية ,16/120ملخصا]
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp nmbr
00923468392475
03468392475