حضرت سلطان عبد الحمید خان ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سیرت
یاحضرت سلطان
سلاطین عثمانیہ میں ہر سلطان اپنی حیثیت آپ ہے مگر ان سلاطین میں جس کی سیرت سے میں متأثر ہوا
وہ ہیں حضرت سلطان عبد الحمید خان ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ
ولادت
چونتیس 34 سال کی عمر میں تخت نشیں ہوئے آپ کا سن پیدائش 16 شعبان المعظم 1258ھ بمطابق 1842ء ہوا
دورہ حکومت
1293ھ تا 1326ھ بمطابق 1876ء تا 1909
سلطان عبد الحمید ثانی دولتِ عثمانیہ کے سلاطین میں چونیتیس ویں (34) سلطان ہیں
والدہ کا انتقال
دس سال کی عمر میں والدہ انتقال کرگئیں ان سوتیلی ماں نے آپ کی دیکھ بھال کی ان کی سوتیلی ماں بانجھ تھیں انہوں نے ان کی بہترین طرز پر ترتیب دی او سگی ماں کی طرح ان کی پرورش کرنے کی کوشش کی وہ سلطان سے بے حد محبت کرتی تھیں حتی کہ جب فوت ہوئیں تو اپنی ساری جائیداد اپنے بیٹے کے نام وصیت کرگئیں سلطان عبد الحمید ان کی تربیت سے بہت متأثر تھے سن کے وقار ، دین داری ،اور ان کی پرسکون مدہم آواز کو بہت پسند کرتی تھیں ساری عمر اس خاتون کی شخصیت کا عکس سلطان کی شخصیت پر نمایاں رہا
تعلیم و مہارت
سلطان عبد الحمید نے قصر سلطان میں اپنے دور کے اخلاق اور علم میں مایہ ناز اساتدہ سے تعلیم حاصل کی انہوں نے عربی ، فارسی زبانوں کی تحصیل کی تاریخ کا مطالعہ کیا علم و ادب میں دسترس حاصل کی تصوف کے رموز و معارف سے آگاہی حاصل لی اور ترکی عثمانی زبان میں اشعار بھی کہے اور ان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا
اور اپنی باتوں کا سمجھانا اور دوسرے کا اسے ناچاہتے ہوئے قبول کرنا بھی سلطان کی مہارت سے تھا
سلطان اپنی دور اندیشی کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے
عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم
💐 سلطان ہمیشہ باوضو رہتے حتی جب نیند سے بیدار ہوتے تو بستر سے نیچے اتر نے سے قبل پتھر سے تیمم کرکے اترتے پھر وضو کرتے فرماتے ہیں ہمیشہ باوضو رہنا اسلام کی سنت ہے
💐 سونے سے قبل درود شریف پڑہنا آپ کا معمول تھا ایک بار کی بات ہے کہ آپ ایک رات سلطنت کے معاملات میں الجھ گئے اور درود شریف نہ پڑھ سکے حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے خواب اسے اپنا دیدار کرایا اور فرمایا کہ عبد الحمید کو جاکر کہو کہ تم کل مجھ پر درود پڑہنا بھول گئے اس شخص نے یہ خواب جب سلطان کو سنا سلطان نے اسے سونے سے بھری ایک تھی دی اور پوچھا کہ حضور نے خواب کیا کہا اس نے دوبارہ خواب بیان کیا سلطان نے پھر سے سونے کی تھیلی دی اور پوچھا کہ حضور نے کیا فرمایا اس نے خواب بیان کیا سلطان نے پھر سے ایک تھلی اور دی قریب کھڑے آپ کے انتہائی قریب دوست اور وزیر محمد پاشا نے جب یہ دیکھاکہ آپ پر کیفت طاری ہوگئ تو پاشا نے کہا حضور کیا ہوا ؟؟
سلطان نے جواب دیا میں حضور کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے نام کی لذت محسوس کررہا ہوں سلطان مزید کہتے ہیں اگر آپ مجھے متوجہ نہ کرتے تو میں اپنی پوری سلطنت اس نام سننے پر لٹادیتا
💐 آپ سلطان ہونے کے باوجود خد جو حجاز مقدس کا خادم کہلواتے اور خد کو خادم حرمین شریفین کہتے
مزید کہ آپ محل کے ایک کمرے میں بڑہائ کا کام بھی کرتے تھے
اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کے حقوق کا مکمل خیال رکھتے
💐 سلطان عبد الحمید روضہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفائی کےلیے اپنے ہاتھ سے جھاڑو بنایا کرتے تھے.اللہ اکبر. فرمایا کرتے تھے کاش میں بادشاہ کی جگہ روضے کی صفائی کرنے والا ھوتا. موت سے بھی زیادہ خوبصورت میرے آقا سے محبت ھے کاش دنیا کے سارے پردے ہٹ جائیں اور آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مبارک چہرہ سامنے آجائے کاش میں ان کی آواز سن سکوں میں اکثر
لمبا سانس لیتا ھوں کہ شاید میں آقا کی خوشبو پا سکوں.
سلام ھے اس عاشق رسول کو.
یہ ایسا در ھے جہاں شاہ وگدا برابر ھیں محبت کرنے والا بلال بن جاتا ھے جسے مکہ میں کوئی جانتا تک نہیں تھا.
نفرت کرنے والوں کو زمین بھی نہ ملی دفن ھونے کو.
اللہ ھمیں آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سچی محبت نصیب فرمائے.
💐 خلیفہ عبدالحمید ثانی اپنے وقت کے بہت بڑے شاعر اور عاشق رسولﷺ بھی ہیں...
💐 آپ کے دورِ خلافت میں استنبول سے مدینہ شریف جانے کے لئے ٹرین سروس شروع کی گئی....
آج بھی وہ ریلوے لائن مدینہ شریف میں بچھی ھوئی ھے۔ اور ترکی ریلوےاسٹیشن کے نام سے مشہور ھے....
اُس زمانے میں ٹرین کا انجن کوئلہ کا ھوا کرتا تھا، مکمل تیاریاں ھونے کے بعد مدینہ شریف میں ترکی اسٹیشن پر سلطان عبدالحمید ثانی کو اوپنگ (افتتاح) کے لیے بلایا گیا تو سلطان نے دیکھا۔
کہ کوئلہ والا انجن بھڑ بھڑ آوازیں نکال رہا ھے۔ تو
سلطان عبدالحمید غضبناک ھوگئے۔ اور کچرا اٹھا کر انجن
کو مارنا شروع کر دیا۔
اور کہا۔
حضور ﷺ کے شہر میں اتنی تیز آواز تیری....؟
ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا
تقریباؔؔ 100 سال کا عرصہ ھونے کو آیا،
اس وقت جو انجن بند ھوا تھا۔
وہ آج بھی ایسے ھی مدینہ شریف میں رکھا ھوا ھے.
جو ترکی اسٹیشن سے مشہور ھے،
حجاز ریلوے کیا ہے ؟؟
حجاز ریلوے حرمین شریفین کے ساتھ ساتھ عظیم ’’سلطنت عثمانیہ ‘‘ کی تاریخ کا بھی ایک روشن اور تابناک باب ہے۔ یہ وہ سروس تھی کہ جس نے زائرین حرمین کا دو ماہ کا سفر کم کر کے یکایک 55 گھنٹوں تک محدود کردیا تھا اور اس مناسبت سے سفری اخراجات بھی دس گنا گھٹا دیے تھے۔ ’’حجاز ریلوے‘‘ کی تعمیر کا آغاز یکم ستمبر 1900ء میں عثمانی فرمانبردار سلطان عبدالحمید ثانی کے تخت نشین ہونے کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا
آٹھ سال بعد اسی تاریخ یعنی یکم ستمبر 1908ء کو دمشق سے مدینہ منورہ تک 1320 کلو میٹر طویل ریلوے لائن مکمل ہوئی اور پہلی ٹرین عثمانی عمائدین سلطنت کو لیے دمشق سے روانہ ہوئی۔ مکمل منصوبہ دمشق سے لے کر مکہ مکرمہ تک ریلوے لائن بچھانے کا تھا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے یہ لائن مدینہ منورہ سے آگے نہ بڑھ سکی
تعلیمی اداروں ،عورت اور عورت کی بر پردگی پر سلطان کی گرفت
سلطان جب تخت نشیں ہوئے تو دیکھا کی تعلیمی ادارے اور ان کا نظام مغرب کلچر سے کافی حد تک متاثر تھے
پھر سلطان نے ان تعلیمی اداروں میں دخل دیا اور انہیں اپنی پالیسی میں اسلامی تعلیمات کی طرف توجہ کرنے کی کوشش کی
ان تعلیمی اداروں میں سلطان نے جو اھم نکات مرتب کیے وہ یہ ہیں
1 جنرل ادب اور جنرل تاریخ کے مضامین کو نصاب تعلیم سے خارج کرنا کیونکہ یہ دونوں مضامین مغربی ادب اور دوسری قوموں کی تاریخ کے وسائل کا ایک ذریعہ بن رہے ہیں اور ان سے مسلمان طلباء منفی اثر قبول کررہے ہیں
2 نصاب میں فقہ، تفسیر، اور اخلاقیات کو شامل کرنا
3 صرف اسلامی تاریخ کی تدریس پر اکتفاء کیا جس میں عثمانیوں کی تاریخ بھی شامل ہے
سلطان عبد الحمید نے بعض ایسے مدارس قائم کیے جن کی نگرانی وہ خود کرتے تھے اور ان مدارس کو انہوں نے اسلامی اتحاد تک پہنچنے کا ایک اہم زریعہ خیال کیا
سلطان نے خواتین کی تعلیم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے الگ ادارے قائم کیے اور عورتوں کے ساتھ مردوں کے اختلاط پر پابندی عائد کردی
پھر اس بات کا بھی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ عورتوں کو مکمل شرعی نقاب پہننے کا پابند کریں اور جب وہ سڑکوں پر آئیں تو مکمل اسلامی نقاب اوڑھ کر آئیں
اس دوران مجلس الوزراء کی میٹنگ ہوئ جس میں درج ذیل فیصلے صادر کیے گئے
1 صرف ایک ماہ کی مہلت دی جائے اگر اس کے بعد بھی یہ بے پردگی باقی رہے تو عورتوں پر باہر نکلنے کی پابندی لگادی جائے گی اور ان عورتوں کو نکلنے کی اجازت ہوگی جو باپردہ ہوں اور ضروری ہے کہ یہ نقاب ہر طرح کی زینت اور بیل بوٹوں سے خالی ہوں
2 باریک ریشی نقابوں پر پابندی عائد کردی جائے اور ایسے نقاب اوڑھنے کا عورتوں کو دوبارہ پابند کیا جائے جن سے چہرے کے خدو خال نظر نہ آئیں
3 اس بیان کی تشہیر کے ایک ماہ بعد پولیس بازور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرایا اور انتظامی فورس ان ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کے پابند ہوں
4 حکومتی فیصلوں کے زریعے سلطان کے اس بیان کی تصدیق کی جائے
5 یہ بیان اخباروں میں شائع کیا جائے اور سڑکوں پر آویزاں کیا جائے
یہودی اور فلسطین
💐 سلطان عبد الحمید ثانی اور یہودیوں کے درمیان چپقلش اس غیور مسلمان سلطان کی تاریخ کے اھم ترین واقعات میں سے ہیں یہودیوں کی اسلامی دشمنی اور اہل اسلام کی خلاف ان کی سازشوں کی تاریخ بہت پرانی ہے ظہور اسلام سے جب کہ اسلام کو جزیرہ عرب میں کامیابی ہوئ ۔
ان کی بار بار خیانت اور مسلمانوں کے ساتھ ان دائمی عداوت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ منورہ سے جلاوطن کرنے کا حکم دیا اس دن سے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ہر موقع پر ڈسنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی
💐 عالمی صیہونی یہودی تحریک کا لیڈر "تھیوڈور ہرزل" یہودی مسئلے میں یورپ کے عیسائی ممالک اٹلی، روس، جرمنی، برطانیہ،اور فرانس سے تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور ان ملکوں سے دولت عثمانیہ پر دباؤ ڈلوایا تاکہ سلطان عبد الحمید خان سے ملاقات کرے اور اس سے فلسطین کا مطالبہ کرے
ہرزل کی ہزاوں کوشش کے بعد 1901 میں سلطان سے خوفیہ براہِ راست ملاقات طے ہوئ چنانچہ قصر یلرز کے بڑے ملازمین کی معیت میں موقع دیا گیا اس نے سلطان سے دو گھنٹے کی ملاقات کی ہرزل نے سلطان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ وہ دولتِ عثمانیہ کی مدد سے یورپ میں بہت زیادہ مالدار بینک قائم کرے گا بشرطیکہ سلطان فلسطین میں یہودیوں کو بسنے کی اجازت دے دیں اس کے علاوہ اس نے اس بات پر زور دیا کہ وہ دولتِ عثمانیہ کے تمام قرض بھی ادا کرے گا اور یہ بات 1881 سے لیکر اب تک کہ قرضہ کے بارے میں تھیں اور ہرزل نے وعدہ کیا کہ وہ عبد الحمید کے ساتھ ہونے والی اس خوفیہ ملاقات کو کسی پر عیاں ہونے نہیں دیگا
سلطان عبد الحمید اس ملاقات کے دوران خاموش رہے اور تھیوڈور ہرزل کو کھل کر بات کرنے کا موقع دیا عبد الحمید دراصل یہ چاہتے تھے کہ اس کے اندر جو کچھ بھی خیالات تجاویز منسوبے وہ باتوں باتوں میں کہہ ڈالے تاکہ اس کے ما فی الضمیر کی آگاہی ہوجائے سلطان کی اس خاموشی سے ہرزل کو یہ غلط فہمی ہوگئ کہ وہ اپنی مہم میں کامیاب ہوگیا ہے لیکِن آخر میں اسے یہ معلوم ہوا کہ عبدالحمید کے ساتھ اس کی گفتگو ناکام رہی ہے اور وہ اس کے ساتھ ایک بندراہ پر چلتا رہا
💐 القدس شریف (یروشلم و فلسطین) کے بارے میں سلطان کہتے ہیں " ہم القدس کو کیوں چھوڑ دیں یہ سرزمین ہمیشہ ہماری ملکیت رہی ہے اور یہ ہمیشہ ہماری ملکیت رہے گی یہ مقدس شہر ہمارے ہیں ہمارے اسلامی اسلام سرزمین پر ہیں اور ضروری ہے القدس ہمیشہ ہمیشہ ہمارا رہے
سلطان عبد الحمید نے فلسطین میں یہودی سلطنت کے قیام کے ہدف کو پورا نہ ہونے دیا انہوں نے اس سلسلے میں حد سے بڑھ کر ذمہ داری قبول کی حتی کہ اپنی حکومت کو دائو پر لگا دیا بعد میں یہ چیز (یہودی سلطنت کا قیام) پوری دولتِ عثمانیہ کی تباہی کا باعث بن گئ حالانکہ وہ جانتے تھے جیساکہ نظام الدین اوغلو اپنے ایک لیکچر " دولتِ عثمانیہ کے خاتمے میں یہودیوں کا کردار " میں کہتے ہیں کہ یہودی کافی وسائل رکھتے تھے وہ بڑے منظم طریقے سے کام کرتے تھے اور ہرکام میں کامیابی حاصل کرلیتے تھے مال ودولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی مختلف ممالک کہ مابین ہونے والی تجارت ان کے ہاتھ میں تھی یورپ کی صحافت ان کی ملکیت میں تھی
💐 جب فلسطین کی زمین کے بدلے میں بھاری لالچ دیا گیا تو آپ نے فرمایا فلسطین میرا نہیں بلکہ امّت کا ہے اور امّت نے اس کے لئے اپنا خون بہایا ہے اگر میرے جسم کے ٹکڑے بھی کر دیئے جائیں تو میں پھر بھی فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا
وفات
عظیم الشان سلطان عبد الحمید خان ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ 75 برس کی عمر
میں 10 فروری 1918ء کو اس دارفانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے
اللہ تعالیٰ ان کے صدقے ہمیں غیرت ایمانی عطاء فرمائے
حوالہ جات
السلطان عبد الحمید الثانی
السلطان عبد الحمید حیاتہ و احداث عہدہ
سلطنتِ عثمانیہ
دولت عثمانیہ
الیہود و الدولة العثمانية
تحریر :
احمدرضا مغل