امہات المؤمنین اَزواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن
امہات المؤمنین اَزواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہنآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زوجیت کے شرف کی وجہ سے امہات المؤمنین کے لقب سے سرفراز ہوئیں،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ِربانی ہے :
وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- (پ۲۱،الاحزاب:۶) ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں۔
امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ قول نقل کیاہے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہنحرمت میں مؤمنین کی مائیں ہیں اور مؤمنوں پراسی طرح حرام ہیں جس طرح ان کی مائیںحرام ہیں۔ (الدرالمنثورفی التفسیرالمأثور،سورۃ الاحزاب،تحت الآیۃ:۶،ج۶،ص۵۶۶)
علامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن یعنی جن سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے نکاح فرمایا،چاہے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال ظاہری سے پہلے ان کاانتقال ہواہو یاحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعدانھوں نے وفات پائیہو،یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اورہر امتی کے لیے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم وواجب الاحترام ہیں۔(شرح العلامۃ الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات،ج۴،ص۳۵۶)
قرآن پاک کی ان آیات مبارکہ سے بھی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی بلند پایہ شان کا اظہار ہوتا ہے
وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِۙ-وَ اَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا(۳۱)یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (پ۲۲،الاحزاب:۳۱،۳۲)
ترجمہء کنزالایمان:اور جو تم میں فرمانبردار رہے اللہ اور رسول کی اور اچھا کام کرے ہم اسے اَوروں سے دونا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کیلئے عزت کی روزی تیار کررکھی ہے اے نبی کی بیبیو تم اَورعورتوںکی طرح نہیںہو۔
صدرالافاضل حضرت علامہ مولاناسیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی اس کی تفسیرمیںفر ماتے ہیں :یعنی اے نبی کی بیبیو اگر اوروں کوایک نیکی پر دس گنا ثواب دیں گے تو تمہیں بیس گناکیونکہ تمام جہان کی عورتوں میں تمہیں شرف وفضیلت ہے،اور تمہارے عمل میں بھی دو جہتیں ہیں ایک ادائے اطاعت ،دوسرے رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی رضا جوئی اور قناعت وحسن معاشرت کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خوشنود کرنا۔تمہارامرتبہ سب سے زیادہ ہے اور تمہارا اجرسب سے بڑھ کر،جہان کی عورتوں میں کوئی تمہاری ہمسر نہیں۔(خزائن العرفان،ص۶۷۳)
۔قرآن پاک کی آیات اوراحادیث مبارکہ میں امہاتالمؤمنین کے بے شمار فضائل ومناقب مذکورہیں جن میں سے بعض کو جمع کیا گیا ہے جن کے مطالعہ سے ان کی شان وعظمت کا پتاچلتا ہے۔ ان مقدس صالحات کے حالات وواقعات میں ہمارے لیے درس ہدایت ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان کے ذریعے اپنی اصلاح کا سامان کریں ۔
امہات المؤمنین اَزواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن
حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نسبت مبارکہ کی وجہ سے ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے،ان کی شان میں قرآن کی بہت سی آیات بینات نازل ہوئیںجن میں ان کی عظمتوں کا تذکرہ اور ان کی رفعت شان کا بیان ہے،چنانچہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (پ۲۲،الاحزاب:۳۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اے نبی کی بیبیو تم اورعورتوںکی طرح نہیں ہو۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایاکہ
وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- (پ۲۱،الاحزاب:۶) ترجمۂ کنزالایمان:اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں۔
یہ تمام امت کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مقدس ازواج دوباتوں میں حقیقی ماں کے مثل ہیں ،ایک یہ کہ ان کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی کا نکاح جائز نہیں۔
دوم یہ کہ ان کی تعظیم وتکریم ہر امتی پر اسی طرح لازم ہے جس طرح حقیقی ماں کی، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ،لیکن نظر اور خلوت کے معاملہ میں ازواج مطہرات کاحکم حقیقی ماں کی طرح نہیںہے کیونکہ قرآن مجید میں حضرت حق جل جلالہ کا ارشاد ہے کہ
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْــٴَـلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍؕ- (پ۲۲،الاحزاب:۵۳)
ترجمۂ کنزالایمان:اورجب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔
مسلمان اپنی حقیقی ماں کو تو دیکھ بھی سکتا ہے اور تنہائی میں بیٹھ کر اس سے بات چیت بھی کر سکتا ہے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مقدس ازواج سے ہر مسلمان کے لیے پردہ فرض ہے اور تنہائی میں ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا حرام ہے ۔
اسی طرح حقیقی ماں کے ماں باپ،نانی نانا اورحقیقی ماں کے بھائی بہن ماموں خالہ ہوا کرتے ہیں ،مگرازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ماںباپ امت کے نانی نانااور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہنکے بھائی بہن امت کے ماموں خالہ نہیں ۔
یہ احکام حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ان تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ہیں جن سے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے نکاح فرمایا ،چاہے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے پہلے ان کا انتقال ہوا ہو یا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد انہوں نے وفات پائی ہو۔یہ سب کی سب امت کی مائیں ہیں اور ہر امتی کے لیے اس کی حقیقی ماں سے بڑھ کر لائق تعظیم و واجب الاحترام ہیں ۔(شرح العلامۃ الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات،ج۴،ص۳۵۶)
ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی تعداداور ان کے نکاحوں کی ترتیب کے بارے میں مؤرخین کا قدرے اختلاف ہے ۔مگر گیارہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ان میں سے حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے ہی انتقال ہوگیا تھا
السلام نے پھر آغوش میں لے کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا پڑھئے میں نے کہا میں نہیںپڑھتا۔ تیسری مرتبہ پھرمگر نو بیبیاں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات اقدس کے وقت موجود تھیں ۔
ان گیارہ امت کی ماؤں میں سے چھ خاندان قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم وچراغ تھیں جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں :
{۱} خدیجہ بنت خویلد {۲} عائشہ بنت ابوبکر صدیق {۳} حفصہ بنت عمر فاروق {۴}ام حبیبہ بنت ابوسفیان {۵} ام سلمہ بنت ابوامیہ {۶} سودہ بنت زمعہ
اورچار ازواج مطہرات خاندان قریش سے نہیں تھیں بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں وہ یہ ہیں :
{۱} زینب بنت جحش {۲} میمونہ بنت حارث {۳} زینب بنت خزیمہ
{۴} جویریہ بنت حارث اور ایک زوجہ یعنی صفیہ بنت حیی ،یہ عربی النسل نہیں تھیں بلکہ خاندان بنی اسرائیل کی ایک شریف النسب رئیس زادی تھیں ۔
اس بات میں بھی کسی مؤرخ کا اختلاف نہیں ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا اور جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے کسی دوسری عورت سے عقد نہیں فرمایا۔
( شرح العلامۃ الزرقانی، المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات، ج۴،ص۳۵۹)