سیرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہُ تعالیٰ
*🌹سیرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہُ تعالیٰ *🌹
نسب:
نعمان بن ثابت بن نعمان بن مرزبان بن قیس بن یزدگرد بن شہریاربن نوشیرواں (حدائق حنیفہ)
*مولی علی المرتضیٰ رضی اللهُ تعالٰی عنہ کی دعا :*
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اسمعیل بیان کرتے ہیں:
جب میرے دادا جناب ابوحنیفہ پیدا ہوئے تو یہ اسی(80) ہجری کا واقعہ ہے میرے پردادا جناب ثابت اپنے نومولود صاحبزادے ابوحنیفہ کو اٹھائے ہوئے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لائے آپ رضی اللهُ تعالٰی عنہ نے میرے دادا ابو حنیفہ کے لئے برکت کی دعا فرمائی
اور ان کی اولاد میں برکت کی دعا فرمائی،
اسمعیل کہتے ہیں ہمیں قوی امید ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے حق میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول فرما لی۔ اور فرماتے ہیں الله کی قسم! ہمارے آباء غلام نہیں تھے
(تاریخ بغداد ج١٣،ص٣٢٦، ابن خلکان ج٥ص٤٠٥)
*روایت مذکورہ پر تبصرہ:*
امام اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے کے حلفیہ بیان سے پتہ چلا کہ آپ جدی پشتی آزاد تھے اور آپ کا نسب نامہ نوشیرواں سے جا ملتا ہے لہذا شیعوں کا یہ کہنا بالکل غلط اور منگھڑت ہے کہ آپ غلام تھے یا جولاہے تھے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اگرچہ اللہ کی تقدیر میں ہی صاحب فضل وعلم مقرر تھے لیکن بظاہر اس کا سبب حضرت علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم کی دعا کو بنا دیا،
*🌹اس سے پتہ چلا بزرگوں کی دعاؤں میں اثر ہوتا ہے.*🌹
*احادیث کی روشنی میں شان امام ابوحنیفہ رحمہ اللہُ:*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بے شک میری امت میں ایک مرد کامل ہے اور حدیث قصری میں یوں مذکور ہے، میری امت میں ایک مرد کامل ہوگا *اس کا نام نعمان اور اس کی کنیت ابو حنیفہ ہے وہ میری امت کا سراج ہے* (تین بار یہی فرمایا)
تاریخ بغدادج١٣،ص٣٣٥ مكتبه سلفيه مدينة منوره)
*بہت سی صحیح احادیث امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فضل پر دلالت کرنے والی موجود ہیں یہاں پر صحیحین کی حدیث پاک نقل کرتا ہوں جسے امام بخاری امام مسلم نے روایت کیا*
حضرت ابو ہریرہ سے اور طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے،
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:*🌹
اگر ایمان ثریا ستارے جیسا دور ہو گیا تو بھی فارس کے باشندوں میں سے کچھ مرد اسے حاصل کرلیں گے۔
اور حضرت قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کے الفاظ میں ہے،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *اگر علم ثریا ستارے کے ساتھ بھی معلق ہوا تو اسے اہل فارس میں سے کچھ مرد حاصل کر لیں گے*
اور طبرانی نے یوں روایت کیا: اس کو عرب حاصل نہ کریں گے البتہ اہل فارس کے آدمی ضرور حاصل کرلیں گے۔
امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ایمان ثریا کے نزدیک بھی ہوا تو اسے ایک فارس کا رہنے والا لے جائے گا یہاں تک کہ اسے حاصل کرلے گا۔
*احادیث مذکورہ بالا پرتبصرہ:*
اب یہاں پر یہ سوال ہے کہ اہل فارس سے مراد کیا ہے؟
تو اس پر حضرت امام دیلمی کی دلیل کافی ہے آپ کیا فرماتے ہیں فرمایا کہ "خیر العجم فارس"
فارس سے مراد وہ عجم کا علاقہ فارس ہے۔
امام ابوحنیفہ کے جدامجد فارس کے رہنے والے تھے جیسا کہ *اکثر* نے اس بات کو تسلیم کیا
اور *امام سیوطی* رحمہ اللہُ نے بھی یہ کہا جسے امام بخاری مسلم نے روایت کیا اصل صحیح ہے ۔امام ابو حنیفہ کی طرف اشارہ کرنے میں اس پر اعتماد کیا گیا اور اس کی صحت متفق علیہ ہے۔
*حدیث صحیحین پر محدثین کی آراء:*
حافظ سیوطی سے لکھا یعنی امام سیوطی کے جو شاگرد وہ کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ نے جس پر جزم و یقین فرمایا
وہ یہ کہ اس حدیث سے مراد امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں
(رد المختار)
نوٹ: اگر ہم زمینی حقائق کو بھی دیکھیں یہ دلیل ایک طرف حقائق بھی اس بات پر شاہد عادل ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پائے کا علم و فضل میں کوئی بھی آپ کے زمانے میں اس علاقے میں نہیں پہنچ سکا نہ آپ کے بعد کوئی پہنچ سکا *اس بات پر سب متفق ہیں*
اب اگر وہ احباب جو اس حدیث کو چند ایک ضعیف کہتے ہیں، تو ضعیف کے متعلق تو اس بات پر سب متفق ہیں فضیلت کے باب میں ضعیف بالاتفاق قبول ہوتی ہے
تو یہاں پر بھی کوئی شرعی حکم بیان نہیں ہوا بلکہ فضيلة بیان کی جارہی ہے لہذا اس فضیلت کو قبول کر نا چاہئے نہ کہ ضعيف کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔
نبی پاک صلی علیہ وسلم نے علم دین اور ایمان کو ثریا سے بھی لے آنے والا جس فارسی النسل شخص کا ذکر کیا *امام شامی* نے اس روایت پر علامہ سیوطی نے بلاشبہ اور حدیث سے مراد امام اعظم کی ذات کو لیا
حنابلہ کے اقوال :
امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے ابوحنیفہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ نہایت صاحب تقویٰ اور بہت بڑے زاہد سے اور آخرت پیار کرنے والے تھے یہ اوصاف اور میں اس قدر تھے کہ کسی اور کو نصیب نہ ہوں گے انہیں منصب قضاء قبول کرنے کے لیے کوڑوں سے خلیفہ منصور کے دور میں مارا گیا لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اللہ کی رحمت ہو آپ پر
ابراہیم حربی کی طرف اپنی اسناد سے خطیب نے ذکر کیا کہ میں نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ دقیق مسائل آپ کو کہاں سے ہاتھ لگے ہیں فرمانے لگے محمد بن حسن کی کتابوں سے ، خطیب نے اپنی اسناد کے ساتھ امام شافعی کی طرف سے یہ بات ذکر کی انہوں نے فرمایا : میں نے جس کسی کے ساتھ کسی مسئلہ پر گفتگو کی اس کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا لیکن امام محمد بن حسن کا چہرہ کبھی متغیر نہیں ہوا۔۔
(جامع الاسانید ج2ص360)
*تبصرہ*
امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ خود عظیم محدث اور فقیہ ان کی تجدیدی و اجتہادی حیثیت کی وجہ سے ابنِ قدامہ نے بھی انہیں اپنا امام اور مقتدی تسلیم کیا، پھر امام شافعی رضی اللہ عنہ درجہء اجتہاد میں کسی سے کم نہیں ،
جب یہ دونوں عظیم مجتہد و محدث حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی خوبیوں میں رطب اللسان ہیں اور ان کے شاگردوں کی علمی و تحقیقی وجاہت تسلیم کرتے ہیں تو ابن قدامہ کی یہ جرات محض ایک جرات ہی ہوگی جن کے شاگرد اتنے عظیم الشان ہیں
کہ امام شافعی سے امام محمد کے بارے میں مذکورہ قول ہے
ان(امام محمد) کے امام(امام اعظم) استاد کا کیا مقام و مرتبہ علمی ہوگا۔
درمختار میں ہے:
امام محمد کے شاگردوں میں سے ایک امام شافعی بھی ہیں انہوں نے امام شافعی کی والدہ سے شادی کی اور پھر امام شافعی کو امام احمد نے اپنی کتابیں، مال سپرد کیا اور امام شافعی اس کی وجہ سے ہی فقیہ ہوئے خود امام شافعی نے کیا انصاف کی بات کی کہنے لگے جو شخص فقہ کے اصول کا ارادہ کرے اسے چاہیے کہ ابو حنیفہ کے اصحاب کا دامن نہ چھوٹے بیشک ان کے لئے بہت آسان ہو گئے ہیں
خدا کی قسم ! میں صرف اور صرف محمد بن حسن کی کتابوں کی وجہ سے فقیہ بنا ۔
(درمختار ج1ص50)
جب ہم ان حضرات کے ایسے ارشادات پر نظر کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہےکہ اللہ تعالی نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو وہ فقاہت اور اجتہادی بصیرت عطا فرمائی تھی جس کے اثرات ان کے شاگردوں میں پائے گئے
اور انہیں کی بدولت لوگوں نے اجتہادی درجہ حاصل کرلیا اور سب جانتے ہیں کہ فقاہت کا تعلق قرآن کریم کے ساتھ ہوتا ہے
قرآن وحدیث کو سمجھنا، ان سے مسائل کا استخراج اور اس کی تعلیم و تدریس یہ سب باتیں فقہ کے لئے ضروری ہیں
جب امام شافعی ،امام احمد بن حنبل جیسے تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم فقاہت میں ان کے محتاج ہیں، اور واقعہ بھی یہی ہے
کیونکہ امام محمد نے جو کچھ حاصل کیا وہ امام اعظم ابو حنیفہ سے اور پھر امام محمد کے شاگرد امام شافعی اور امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم ہیں
یوں بالواسطہ یہ سب حضرات امام اعظم کے خوشہ چیں قرار پائے ۔
ان واقعات و حقائق کو سامنے رکھیں تو ابنِ قدامہ کی بات کو کون تسلیم کرے گا کہ امام ابو حنیفہ کو حدیث کا علم نہ تھا اور وہ عقیقہ کی حقیقت سے واقف نہ تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ امام احمد بن حنبل (ابن قدامہ کے امام) اپنے شیخ و استاد حضرت امام شافعی رحمہ اللہُ کی تعریف کرتے ہیں اور ان کے علم و معرفت کے مداح ہیں یہی امام شافعی فرماتے ہیں : *"فقيه عيال لأبي حنيفة"*
تمام فقہاء امام ابوحنیفہ کے عیال(اولاد) ہیں۔
ان تمام باتوں کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ خود ابنِ قدامہ کے پاس جو علمی وفقہی روشنی ہے وہ امام ابوحنیفہ کے گھر سے آئی ہے اور انہیں ملی ہے کیونکہ وہ روشنی امام محمد نے حاصل کی ان سے امام شافعی نے ان سے امام احمد بن حنبل نے اور پھر ان سے کہیں جاکر ابن قدامہ کو کچھ ملا ۔
تاریخ بغداد میں ہے:
مجھے محمد بن نضر نے بتایا کہ میں نے اسماعیل بن سالم البغدادی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ امام ابوحنیفہ کو قضا کا عہدہ قبول کرنے سے انکار پر شدید مارا گیا آپ نے پھر بھی عہدہ قبول نہ فرمایا اور امام احمد بن حنبل جب اس واقعہ کا ذکر فرماتے تو رو پڑتے اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے رحمت فرماتے۔
(تاریخ بغداد ج13 ص327)
امام ابو یوسف (امام احمد بن حنبل کے استاد) کے مناقب:
امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام ابو یوسف صدوق ہیں۔
امام ابو یوسف سے مروی ہے آپ نے اللہ تعالی سے یوں دعا کی
اے اللہ ! تو یقیناً جانتا ہے کہ میں نے تیرے جن دو بندوں کے درمیان فیصلہ کیا ان میں سے کسی سے بھی جان بوجھ کر اجرت نہیں لی اور میں نے فیصلہ کرنے میں بہت سوچ و بچار کی اور کوشش کی کہ میرا فیصلہ تیرے نبی صلی اللہ وسلم کی سنت کے موافق ہو
اور جب کبھی مجھے اس بارے مشکل پیش آئی تو میں نے تیرے اور اپنے درمیان امام ابو حنیفہ کو رکھا۔
خدا کی قسم ! وہ میرے نزدیک ان میں سے ہیں جو تیرے احکام کو خوب پہچانتے ہیں اور وہ کبھی حق سے ادھر ادھر نہیں ہوتے ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں امام ابویوسف کی مثل اور کوئی نہ تھا۔
یہی وہ پہلے خوش بخت ہیں جنہوں نے امام ابو حنیفہ کے علم کو دنیا میں پھیلایا ۔۔
امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
شروع شروع میں جب میں نے حدیث پاک لکھنا شروع کی تو میں نے امام ابو یوسف کے پاس آنا جانا شروع کیا
اور ان سے روایت حدیث لکھی۔
امام ابویوسف جنابِ اعمش، ہشام اور عروہ وغیرہ سے روایت کرتے ہیں۔ آپ عظیم محدث، حافظ تھے۔
پھر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کےدامن سے وابستہ ہوگئے
کثیر محدثین کا کہنا ہے کہ امام ابو یوسف ایک ہی مجلس میں 50 50 احادیث ان کی سندوں سمیت یاد کر لیا کرتے تھے ابنِ عبد البر کا کہنا ہے کہ
امام ابویوسف بہت بڑے قاضی،فقیہ،عالم اور حافظ تھے یہ بھی ذکر کیا کہ
آپ حدیث پاک اچھی طرح جانتے پہچانتے تھے اور محفوظ رکھنے سے بار بار دہراتے بھی تھے
پچاس ساٹھ کے لگ بھگ احادیث یاد کرکے لوگوں کو لکھوانے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے اور آپ کثیر الحدیث تھے۔
ہر نماز کے اختتام پر اللہ تعالی سے یہ دعا کیا کرتے تھے
اے اللہ! مجھے اور امام ابو حنیفہ کو معاف فرما دے۔
امام ابویوسف مشہور و معروف تھے آپ کی فضیلت سب پر عیاں تھی۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔
آپ کے زمانے میں آپ سے کوئی نہ بڑھ سکا، علم و حلم میں انتہائی درجہ پایا۔ ریاست ،عزت، بزرگی میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔
امام ابو یوسف وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذہب کے مطابق اصول فقہ کے موضوع پر کتابیں تصنیف کیں اور مسائل فقہیہ لکھائے اور امام ابو حنیفہ کے علم کو زمین کے کونے کونے تک پھیلا یا۔
(شذرات الذہب ج١ حصه اول)
تبصرہ :
قارئین کرام! امام سیدنا امام قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کی علمیت و للہیت کی جھلک آپ نے ملاحظہ فرمائی،
50 ساٹھ احادیث اسناد سمیت جو روزانہ حفظ کرتا ہو۔
اس کے حافظ الحدیث ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟
قاضی القضاء کے عہدہ پر بلا معاوضہ خدمات
سرانجام دینا دین متین کی خدمات کی تابندہ مثال ہے اور جب ایسی نابغہ روزگار شخصیت یہ کہے کہ مشکلات میں میرا معمول یہ تھا کہ میں اپنے اور اللہ کے درمیان امام ابو حنیفہ کو وسیلہ بنایا کرتا تھا۔اس سے امام ابوحنیفہ کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
03013823742