زندگی تو ختم کردے گی
🌹 *زندگی تو ختم کردے گی* 🌹
*✍ ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*
👈 اس بات پہ سب کا اتفاق ہے کہ زندگی روز ایک ایک دن کرکے مارے گی ، جسم ٹوٹ جائے گا ، نیند روٹھ جائے گی ، انگ انگ فریاد کرے گا۔ اور خوشی ملتی رہے گی مگر درد کے دو پٹھوں میں آڑ بن کر۔ مگر جس حال میں جینا مشکل ہو ، اسی حال میں جینا لازم ہے۔
👈 ہم سب کے خواب ہیں ، نیتیں ہیں ، ارادے ہیں ، عزائم ہیں ، امیدیں ہیں کچھ پوری ہوں گی اور کچھ ادھوری رہ جائیں گیں۔ کچھ پوری ہوکر ادھوری ہو جائیں گی۔ ہم سب اپنے خوابوں کے تعاقب میں مارے جائیں گے۔
👈 سوچوں کی راہوں میں چلتے ہوئے بیس برس سے زائد عرصہ ہوگیا. اس عرصے کے دوران ایک چیز سیکھنے کو یہ ملی کہ ہم میں سے اکثر جذباتی طور پر کانچ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب زندگی جب اپنا اصلی رُخ دیکھاتی ہے تو ہم چور چور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم نے اس کانچ کو آگ پر صیقل نہیں کیا ہوتا۔
👈 ہمیں ذاتی طور پر اور قومی طور پر ، جذباتی طور پر ٹف ہونا پڑے گا ، اپنے جذباتی مسلز کے اوپر سے چربی پگھلانا پڑے گی۔ اگر ہم جذباتی طور پر تگڑے ہوجائیں تو زندگی کے حادثات ہمیں تھکا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے۔ کیونکہ مشکل راستہ نہیں ، مشکل ہی راستہ ہے۔ راستے میں جو رکاوٹ آتی ہے ، وہ بھی راستے کا حصہ بن جاتی ہے۔
👈 تمہاری زندگی میں جتنی بھی اینٹیں پھینکی جائیں گیں ، ان سے ہی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتا ہوا رستہ تعمیر ہوجائے گا۔ ہم حالات پر نہیں ، اپنے اوپر بس چلا سکتے ہیں۔ جب زندگی ہمیں اپنے قدموں پر اوندھے منہ جھکا دے اور اٹھنے کی سکت نہ ہو تو پھر بھی ہم گرے رہنے سے انکار کر سکتے ہیں۔
👈 صبر راستہ ہے ، ہمت راستہ ہے ، عاجزی راستہ ہے ، رکاوٹ راستہ ہے۔ اپنی زندگی پر غور کریں ، اس میں جتنا بھی رنگ ہے ، اس میں اس وقت نکھار آیا ؟
👈 شکوہ کرنا چھوڑ دو ، اپنی ذمہ داری پر اور اپنی شرطوں پر جینا شروع کرو۔ زندگی اور لوگوں کو اپنے آپ کو روندنے کا حق خود دیا ہے ، وہ ان سے واپس لے لو۔ کانچ مت بنو ، لوہے کے چنے بن جاؤ۔ زندگی کے چکر سے کوئی بچ کر نہیں نکلتا. بس آدمی کو مرتے دم تک ضرور زندہ رہنا چاہیے۔