یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے؟




سائل : عبداللہ میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جی ہاں! بلاشک و شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا ذکر قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر موجود ہے لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علمِ غیب سے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ کیا ہے ؟ اس حوالے سے چند باتیں پیشِ نظر رہیں گی تو اِنْ شَآءَ اللہُ کوئی گمراہ جو مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا منکر ہے وہ کسی مسلمان کو گمراہ اور پریشان نہیں کر سکے گا۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
1- بے شک غیرِ خدا کے لیے ایک ذرہ کا علمِ ذاتی نہیں، اس قدر (یعنی اتنی بات) خود ضروریاتِ دین سے ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔
2- بے شک غیرِ خدا کا علم اللہ پاک کی معلومات کو حاوی نہیں ہوسکتا، برابر تو درکنار۔ تمام اَوّلِین و آخِرین، اَنبیاء و مُرسَلین، ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں مُتَناہی ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے)، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے، جبکہ اللہ پاک کے علوم وہ غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہی نہیں)۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق و مغرب، روزِ اول تا روزِ آخر جملہ کائنات کو محیط ہو جائیں پھر بھی متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے۔

3- بالفعل غیر متناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جملہ علومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً (یعنی بالکل) نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَاللہ تَوَہُّمِ مساوات۔
4- اس پر اجماع ہے کہ اللہ پاک کے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے، یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔
5- اور اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں محمدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام و تمام جہان سے اَتَمّ و اعظم ہے، اللہ پاک کی عطا سے حبیبِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ پاک ہی جانتا ہے۔"
*(ملخصاً فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 450 ، 451 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*علمِ غیب مصطفیٰ پر چند قرآنی دلائل :*
اب کچھ قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیں کہ جن میں حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا ذکر موجود ہے۔
*1- پہلی دلیل :*
*ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕ- وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ۪-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ*
ترجمہ : یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے کہ مریم کس کی پرورش میں رہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔
*(پارہ 3 سورہ آل عمران : 44)*
اس آیت میں فرمایا گیا کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ عَنْہا کا واقعہ غیب کی خبروں میں سے ہے۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے ہیں۔
*2- دوسری دلیل :*
*مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى  مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ  الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ- فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۚ-وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ*
ترجمہ : اللہ مسلمانوں کو اسی حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو! تمہیں غیب کا علم دے دے، ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔
*(پارہ 4 سورۃ آل عمران: 179)*
اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ :
’’اے عام لوگو! اللہ پاک تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ پاک اپنے رسولوں کو منتخب فرما لیتا ہے اور ان برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور چونکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں، اسلیے انہیں سب سے بڑھ کر غیب کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ 
اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ پاک نے نبی مکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے اور غیبوں کا علم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔ 
آیت کے آخر میں فرمایا کہ :
’’اے لوگو ! تمہیں غیب کا علم نہیں دیا جاتا، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، جس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات کی تصدیق کرو کہ اللہ پاک نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے۔
*3- تیسری دلیل :*
*وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا*
ترجمہ : اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔
*(پارہ 5 سورۃ النساء : 113)*
یہ آیتِ مبارکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی عظیم مدح پر مشتمل ہے۔ 
اللہ پاک نے فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ پاک نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو دین کے اُمور، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ عُلوم عطا فرما دئیے جو آپ نہ جانتے تھے۔
یاد رہے کہ یہاں *’’مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘* میں وہ سب کچھ داخل ہے جو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں جانتے تھے۔ 
معتبر تفاسیر میں اس کی صراحت موجود ہے۔
*(تفسیر البحر المحیط، سورۃ النساء، تحت الایۃ: 113، جلد 3، صفحہ 362، تفسیر طبری، سورۃ النساء، تحت الایۃ: 113، جلد 4، صفحہ 275، نظم الدرر ، سورۃ النساء، تحت الایۃ: 113، جلد 2، صفحہ 317، زاد المسیر فی علم التفسیر، سورۃ النساء، تحت الایۃ: 113، صفحہ 324، تفسیر روح المعانی، سورۃ النساء، تحت الایۃ: 113، جلد 3، صفحہ 187)*
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃ ُاللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
’’اللہ پاک نے پوری مخلوق کو جو علم عطا فرمایا، اس کے بارے میں ارشاد فرمایا :
*وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا* 
ترجمہ :  اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
*(بنی اسرائیل:۸۵)*
اسی طرح پوری دنیا کے بارے میں ارشاد فرمایا :
*قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْل*
ترجمہ : اے حبیب! تم فرما دو کہ دنیا کا سازو سامان تھوڑا سا ہے۔
*(سورۃالنساء : 77)*
تو جس کے سامنے پوری دنیا کا علم اور خود ساری دنیا قلیل ہے وہ جس کے علم کو عظیم فرما دے اس کی عظمتوں کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ 
*(تفسیر کبیر، سورۃ النساء، تحت الآیۃ: 113، جلد 4، صفحہ 217)*
*چوتھی دلیل :*
*تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَۚ-مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا ﳍ فَاصْبِرْ ﳍ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠*
ترجمہ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم انہیں جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم جانتی تھی تو تم صبر کرو بیشک اچھا انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔
*(پارہ 12 سورہ ھود : 49)*
اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : اے حبیب! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کے جس واقعے کی ہم نے آپ کو خبر دی یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، پتہ چلا اللہ پاک نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علمِ غیب عطاء فرمایا۔
*5- پانچویں دلیل :*
*ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَۚ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ وَ هُمْ یَمْكُرُوْنَ*
ترجمہ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنا کام پکا کیا تھا اور وہ داؤں چل رہے تھے ۔
*(پارہ 13 سورۃ یوسف : 102)*
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جو واقعات ذکر کئے گئے، یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم نہ تھیں  کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں  کے پاس نہ تھے جب انہوں  نے اپنے بھائی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنویں میں  ڈالنےکا پختہ ارادہ کر لیا تھا اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں سازش کر رہے تھے، اس کے باوجود اے اَنبیاء کے سردار! صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجزہ ہے۔
*(تفسیرِ خازن، سورۃ یوسف، تحت الآیۃ: 102، جلد 3، صفحہ 47، 48، تفسیر مدارک، سورۃ یوسف، تحت الآیۃ: 102، صفحہ 546، 547، ملتقطاً)*
*چھٹی دلیل :*
*اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَؕ*
ترجمہ : یا ان کے پاس غیب ہے کہ وہ (اس کے ذریعے فیصلہ) لکھتے ہیں۔
*(پارہ 27 سورۃ الطور : 41)*
یعنی شریعت کے احکام پس ِپُشت ڈالنے والے مشرکین کے پاس کیاغیب کا علم ہے جس کی وجہ سے وہ یہ حکم لگاتے ہیں  کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے اور اٹھے بھی تو انہیں عذاب نہیں  دیا جائے گا ۔جب یہ بات بھی نہیں  ہے تو وہ کیوں اسلام قبول نہیں کرتے۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : 
’’اس آیت میں  یہ اشارہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جو کچھ اَسرار، اَحکام اور کثیر خبروں  کا علم ِغیب ہے وہ وحی کے ذریعے انہیں حاصل ہوا ہے۔
*(تفسیر کبیر، سورۃ الطور، تحت الآیۃ: 41، جلد 10، صفحہ 221، تفسیر مدارک، سورۃ الطور، تحت الآیۃ: 41، صفحہ 1176، ملتقطاً)*
*7- ساتویں دلیل :*
*عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ. اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًاۙ*
ترجمہ : غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرر کر دیتا ہے۔
*(پارہ 29 سورۃ الجن : 26، 27)*
ان دونوں آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’’اللّٰہ پاک غیب کا جاننے والا ہے تو وہ اپنے اُس غیب پر جس کا علم اس کے ساتھ خاص ہے، اپنے پسندیدہ رسولوں کے علاوہ کسی کو کامل اطلاع نہیں دیتا جس سے حقیقتِ حال مکمل طور پر مُنکشف ہو جائے اور اس کے ساتھ یقین کا اعلیٰ درجہ حاصل ہو (اور رسولوں  کو) ان میں سے بعض غیوب کا علم، کامل اطلاع اور کشفِ تام کے ساتھ اس لئے دیتا ہے کہ وہ علمِ غیب ان کے لئے معجزہ ہو اور اللّٰہ تعالیٰ ان رسولوں  کے آگے پیچھے پہرے دار فرشتے مقرر کر دیتا ہے جو شیطان کے اِختلاط سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔
*(تفسیربیضاوی، سورۃ الجن، تحت الآیۃ: 26، 27، جلد 5، صفحہ 402، تفسیر جمل، سورۃ الجن، تحت الآیۃ: 26، 27، جلد 8، صفحہ 140، ملتقطاً)*
*8- آٹھویں دلیل :*
*وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ*
ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے پر ہر گز بخیل نہیں۔
*(پارہ 30 سورۃ التکویر : 24)*
ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :
’’یعنی میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو غیب کا علم آتا ہے، وہ تمہیں  بتانے میں بخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں. 
*(تفسیر بغوی، سورۃ التکویر، تحت الآیۃ: 24، جلد 4، صفحہ 422)*
ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں :
’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو غیب کی باتیں  بتائی جاتی ہیں انہیں بتانے میں  وہ بخل نہیں کرتے۔
*(تفسیر بیضاوی، سورۃ التکویر، تحت الآیۃ: 24، جلد 5، صفحہ 459)*
اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو اللّٰہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اس میں  سے بہت کچھ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کو بتایا ہے۔
(ان آٹھ آیات کی تفسیر کو تفسیر صراط الجنان سے مختصراً لیا گیا ہے لہذا تفصیل کے لئے تفسیر صراط الجنان اور دیگر معتبر تفاسیر کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے۔)
*نوٹ :* اس کے علاوہ بھی کئی آیات اور ہزاروں احادیث ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا ذکر موجود ہے۔ 
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
ابواسیدعبیدرضامدنی
02/12/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح 
*فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*