شوہر اور بیوی کی میت کے احکام
*استفتاء*
1- کیا شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو چھو سکتے ہیں ؟
2- کیا شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو غسل دے سکتے ہیں ؟
3- کیا شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو بوسہ دے سکتے ہیں ؟
4- کیا شوہر اپنی بیوی کے جنازہ کو اٹھا سکتا ہے ؟
5- کیا شوہر اپنی بیوی کو قبر میں اتار سکتا ہے ؟
6- کیا غیر محرم مرد، عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے ؟
7- کیا غیر محرم مرد، عورت کی میت کو قبر میں اتار سکتا ہے ؟
سائل : انجینئر الله بخش قادری شہر تلہ گنگ
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- چونکہ بیوی مرنے کے بعد شوہر کے نکاح سے نکل جاتی ہے، اور شوہر اپنی بیوی کے لئے اجنبی کی طرح ہو جاتا ہے، اسی لئے شوہر اپنی بیوی کی میت کو بلاحائل نہیں چھو سکتا، البتہ اسے دیکھ سکتا ہے۔
اور شوہر کے انتقال کے وقت چونکہ عدّتِ وفات پوری ہونے تک عورت شوہر کے نکاح میں باقی رہتی ہے، اسی وجہ سے بیوی اپنے شوہر کی میت کو بلاحائل چھو سکتی ہے۔
2- شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل نہیں دے سکتا جبکہ بیوی اپنے شوہر کی میت کو غسل دے سکتی ہے بشرطیکہ موت سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسی بات واقع نہ ہوئی ہو کہ جس سے اس کا نکاح ہی ختم ہوگیا ہو جیسے شوہر کے مرنے بعد معاذاللہ عورت مرتدہ ہوگئی ہو تو اب اس کا نکاح ختم ہو گیا اور وہ شوہر کے لئے اجنبیہ ہوگئی، اگرچہ وہ غسل سے پہلے دوبارہ مسلمان ہوجائے پھر بھی شوہر کو غسل نہیں دے سکتی۔
3- شوہر اپنی بیوی کی میت کا بوسہ نہیں لے سکتا، جبکہ بیوی اپنے شوہر کی میت کا بوسہ لے سکتی ہے۔
4،5- شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے اور اسے قبر میں بھی اتار سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اسے محارم ہی قبر میں اتاریں۔
6،7- غیر محرم مرد عورت کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے اور اسے قبر میں بھی اتار سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اسے محارم ہی قبر میں اتاریں۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
*"و یجوز للمراۃ ان تغسل زوجھا اذا لم یحدث بعد موتہ ما یوجب البینونۃ من تقبیل ابن زوجھا او ابیہ و ان حدث ذلک بعد موتہ لم یجز لھا غسلہ و اما ھو فلایغسلھا عندنا کذا فی السراج الوھاج"*
یعنی عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر کو غسل دے جب کہ شوہر کی موت سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسا امر واقع نہ ہوا ہو جس سے اُس کے نکاح سے نکل جائے، جیسے اپنے شوہر کے بیٹے یا اس کے باپ کا (شہوت کے ساتھ) بوسہ لیا، اگرچہ موت کے بعد ایسا کوئی امر واقع ہوا ہو تو بھی عورت کا شوہر کو غسل دینا جائز نہیں، اور بہرحال ہمارے نزدیک مرد (کسی بھی حالت میں) عورت کو غسل نہیں دے سکتا جیسا کہ ’’السراج الوہاج ‘‘ میں ہے۔
*(فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 160، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
تنویرالابصار میں ہے :
*"و یمنع زوجھا من غسلھا و مسھا لا من النظر إلیھا علی الأصح و ھي لا تمنع من ذلک"*
یعنی صحیح تر قول کے مطابق شوہر کا بیوی کی میت کو غسل دینا اور چھونا ممنوع ہے جبکہ اسے دیکھنا منع نہیں ہے اور عورت کو اس سے منع نہیں کیا جائے گا (یعنی شوہر کو غسل دینے سے منع نہیں کیا جائے گا بشرطیکہ نکاح باقی ہو۔)
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ الجنائز،جلد 3، صفحہ 105، 106، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
فتاوی عالمگیری میں ہے :
*"و ذو الرحم المحرم أولی بادخال المرأة من غیرھم، وکذا ذو الرحم غیر المحرم أولی من الأجنبي فان لم یکن فلاباس للاجانب وضعھا، کذا فی البحر الرائق"*
یعنی عورت کو قبر میں اتارنے کے لیے محرم رشتہ دار اپنے علاوہ دیگر سے بہتر ہیں، ایسے ہی جوہرہ نیرہ میں ہے، اور ایسے ہی غیر محرم رشتہ دار اجنبی سے بہتر ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو اجنبیوں کے اتارنے میں بھی کوئی حرج نہیں، ایسے ہی بحرالرائق میں ہے۔
*(فتاوی عالمگیری، کتاب الصلاة، باب الجنائز، الفصل السادس في القبر و الدفن و النقل من مکان الی مکان آخر، جلد 1، صفحہ 166، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ مسئلہ مرد کے بارہ میں صحیح ہے کہ وُہ بعد وفاتِ زن اُسے غسل نہیں دے سکتا، نہ اُس کے بدن کو ہاتھ لگا سکتا ہے کہ موت سے عورت اصلاً محلِ نکاح نہ رہی۔ چھُونے کا جواز صرف بر بنائے نکاح تھا ورنہ زن و شوہر اصل میں اجنبی محض ہوتے ہیں، اب کہ نکاح زائل ہو گیا، چھونے کا جواز بھی جاتا رہا۔ اور عورت کے بارے میں بھی صحیح ہے اُس حالت میں کہ وقتِ غسل عورت زوجیتِ زوج میں نہ ہو۔ مثلاً مرد نے طلاق بائن دے دی تھی یا بعدِ وفات شوہر عدت گزر گئی، مثلاً عورت حاملہ تھی شوہر کے انتقال ہوتے ہی بچہّ پیدا ہوگیا کہ اب عدّت نہ رہی اور زوجیت سے یکسر نکل گئی، اسی طرح عورت معاذﷲ بعد وفات شوہر مرتدہ ہوگئی، پھر اسلام لے آئی یا پسرِ شوہر کو شہوت کے ساتھ چھو لیا کہ ان سب صورتوں میں نکاح زائل ہو گیا، بخلاف اس کے کہ شوہر مر گیا اور عورت عدّتِ وفات میں ہے، یا شوہر نے طلاق رجعی دی تھی اور ہنوز عدت باقی تھی کہ اس کا انتقال ہوا، ان صورتوں میں عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کہ ہنوز حکمِ زوجیّت باقی ہے۔"
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 95، 96، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
”شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔ زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔ یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔“
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 138، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”عورت مر جائے تو شوہر نہ اسے نہلا سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے اور دیکھنے کی ممانعت نہیں۔ عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔“
*(بہارِشریعت، میت کے نہلانے کا بیان، جلد 1، صفحہ 813، مکتبۃ المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
20/04/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
1- الجواب صحيح والمجیب نجیح
*فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
2- الجواب صحیح
*فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی*
3- الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*