کیا مرحومین کی ارواح اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ان سے اپنے لیے ایصال ثواب اور صدقہ خیرات کی التجا کرتی ہیں ؟
کیا مرحومین کی ارواح اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ان سے اپنے لیے ایصال ثواب اور صدقہ خیرات کی التجا کرتی ہیں ؟
سائل : محمد شفیق عطاری فیصل آباد
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جی ہاں! بعض روایات کے مطابق ہر شبِ جمعہ (یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات)، ہر روزِ جمعہ، روزِ عید، روزِ عاشورا اور شبِ براءت کو روحیں اپنے گھروں کی طرف آتی ہے اور ان سے ایصال ثواب اور صدقہ (خیرات) کا تقاضا کرتی ہیں، لہٰذا ان دنوں اور راتوں میں فاتحہ کا اہتمام کرکے ایصال ثواب کرنا چاہیے اور یہ جائز و مستحسن عمل ہے۔
چنانچہ خاتمۃ المحدثین شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"مستحب است کہ تصدق کردہ شود از میّت بعد از رفتن او از عالم تا ہفت روز تصدق از میّت نفع می کند او را بے خلاف میان اہل علم وارد شدہ است در آں احادیث صحیحہ خصوصاً آب، و بعضے از علماء گفتہ اند کہ نمی رسد بہ میّت را مگر صدقہ و دعا، و در بعض روایات آمدہ است کہ روح میّت می آید خانہ خود را شب جمعہ، پس نظر می کند کہ تصدق می کنند ازوے یا نہ۔''*
یعنی میّت کے دنیا سے جانے کے بعد سات دن تک اس کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے۔ میّت کی طرف سے صدقہ اس کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں، اس بارے میں صحیح حدیثیں وارد ہیں، خصوصا پانی صدقہ کرنے کے بارے میں، اور بعض علماء کا قول ہے کہ میّت کو صرف صدقہ اور دعا کا ثواب پہنچتا ہے۔ اور بعض روایات میں آیا ہے کہ رُوح شب جمعہ کو اپنے گھر آتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں یا نہیں۔
*(اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب زیارۃ القبور، جلد 1، صفحہ 716، 717، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)*
شیخ الاسلام ''کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء'' فصل ہشتم میں فرماتے ہیں :
*''در غرائب و خزانہ نقل کردہ کہ ارواحِ مومنین می آیند خانہ ہائے خودرا ہر شب جمعہ روز عید و روز عاشورہ و شب برات، پس ایستادہ می شوند بیرون خانہائے خود و ندامی کند ہریکے بآوازِ بلند اندوہ گین اے اہل و اولاد من و نزدیکانِ من مہربانی کنید برما بصدقہ۔''*
یعنی غرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشورہ، اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو، اے میری اولاد، اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو۔
*(کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء، فصل احکام دعا و صدقہ، صفحہ 66، ماخوذ از فتاوی رضویہ جلد 9، صفحہ 649، 650، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
خزانۃ الروایات میں ہے :
*عن بعض العلماء المحقیقین ان الارواح تتخلص لیلۃ الجمعۃ و تنتش فجاؤا الی مقابرھم ثم جاؤا فی بیوتھم*
بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شبِ جمعہ چھُٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔
(خزانۃ الروایات)
دستور القضاۃ مسند صاحبِ مائۃ مسائل میں فتاوٰی امام نسفی سے ہے :
*ان ارواح المومنین یاتون فی کل لیلۃ الجمعۃ و یوم الجمعۃ فیقومون بفناء بیوتھم ثم ینادی کل واحد منھم بصوت حزین یا اھلی و یا اولادی ویا اقربائی اعطفوا علینا بالصدقۃ و اذکرونا و لاتنسونا و ارحمونا فی غربتنا الخ۔*
بیشک مسلمانوں کی روحیں ہر روز و شب جمعہ اپنے گھر آتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میرے بچّو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہر کرو، ہمیں یاد کرو بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
(دستور القضاۃ)
نیز خزانۃ الروایات مستند صاحب مائۃ مسائل میں ہے :
*عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما اذا کان یوم عید او یوم جمعۃ او یوم عاشوراء و لیلۃ النصف من الشعبان تاتی ارواح الاموات و یقومون علٰی ابواب بیوتھم فیقولون ھل من احد یذکرنا ھل من احد یترحم علینا ھل من احد یذکر غربتنا الحدیث۔*
ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے جب عید یا جمعہ یا عاشورہ کا دن یا شب برات ہوتی ہے اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں : ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے، ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے، ہے کوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے۔
(خزانۃ الروایات)
اسی طرح کنز العباد میں بھی کتاب الروضہ امام زندویسی سے منقول."
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 653، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید اس مسئلہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
"بالجملہ یہ مسئلہ نہ بابِ عقائد سے نہ باب احکامِ حلال و حرام سے۔ اسے جتنا ماننا چاہئے کہ اس کے لیے اتنی سندیں کافی و وافی، منکر اگر صرف انکار یقین کرے یعنی اس پر جزم و یقین نہیں تو ٹھیک ہے، اور عامہ مسائل سیر و مغازی و اخبار وبفضائل ایسے ہی ہوتے ہیں، اس کے باعث وہ مردود نہیں قرار پا سکتے، اور اگر دعوٰی نفی کرے یعنی کہے مجھے معلوم و ثابت ہے کہ روحیں نہیں آتیں تو جھوٹا کذاب ہے، بالفرض اگر ان روایات سے قطع نظر بھی تو غایت یہ کہ عدم ثبوت ہے نہ ثبوت عدم، اور بے دلیل عدم ادعائے عدم محض تحکم و ستم، آنے کے بارے تو اتنی کتب علماء کی عبارات اتنی روایات بھی ہیں نفی و انکار کے لیے کون سی روایت ہے ؟ کس حدیث میں آیا کہ روحوں کا آنا باطل و غلط ہے؟ تو ادعائے بےدلیل محض باطل و ذلیل۔ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ طرف مقابل پر روایات موجودہ بربنائے ضعف مردود، اور اپنی طرف روایت کا نام و نشان اور ادعائے نفی کا بلند نشان، روحوں کا آنا اگر بابِ عقائد سے ہے تو نفیاً و اثباتاٍ ہر طرح اسی باب سے ہوگا، اور دعوٰی نفی کے لیے بھی دلیل قطعی درکار ہوگی، یا مسئلہ ایک طرف سے باب عقائد میں ہے کہ صحاح بھی مردود، اور دوسری طرف سے ضروریات میں ہے کہ اصلاً حاجت دلیل مفقود۔"
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 656، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*نوٹ :*
فتاویٰ رضویہ، جلد 9 (صفحہ 649 تا 656) میں سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر مکمل رسالہ بنام *’’اِتْیَانُ الْاَرْوَاحِ لِدِیَارِھِمْ بَعْدَ الرَّوَاحِ‘‘* (روحوں کا بعدِ وفات اپنے گھر آنا) تحریر فرمایا ہے، جس کی روشنی میں مذکورہ جواب تحریر کیا گیا ہے، لہٰذا اس رسالے کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
01/04/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
آپ کا ارواح کے اجسام سے نکلنے کے بعد گھر لوٹ کر آنے کے ثبوت پر جو فتویٰ ہے، میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے، ماشاء اللہ بہت ہی مدلل و مفصل فتویٰ ہے، میں اس کی مکمل تائید و تصویب کرتا ہوں، اللہ پاک آپ کے علم و فضل میں اضافہ فرمائے۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*