شرک کیاہےاور مشرک کون ہے؟
شرک کیاہےاور مشرک کون ہے؟
شرک کی تعریف و اہلِ عرب میں شرک و بت پرستی کی ابتداء کب ہوئی اور شرک کی اقسام:
شرک کی تعریف یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی غیر کو واجبُ الوجود یا لائقِ عبادت سمجھا جائے ۔ حضرت علامہ سعدُ الدین تفتازانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شرک کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :’’اَ لْاِشْتِرَا کُ ھُوَاِثْبَاتُ الشَّرِیْکِ فِی الْاُلُوْہِیَّۃِ بِمَعْنٰی وُجُوْبِ الْوُجُوْدِ کَمَا لِلْمَجُوْسِ اَوْ بِمَعْنٰی اِسْتِحْقَاقِ الْعِبَادَۃِ کَمَا لِعَبَدَۃِ الْاَصْنَامِ‘‘ ۔ یعنی ’’شرک یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیت (یعنی معبود ہونے) میں کسی کو شریک کرنا اس طرح کہ کسی کو واجبُ الوجود مان لینا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا خدا کے سوا کسی کو عبادت کا حقدار مان لینا جیسا کہ بت پرستوں کا خیا ل ہے ۔ (شرح عقائد نسفیہ، مبحث الافعال کلہا بخلق اللہ تعالی والدلیل علیہا، ص ۷۸،)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِخدا کو معبود یا مستقل بالذّات و واجبُ الوجود نہ جانے ۔ (فتاوی رضویہ جدید ، ۲۱/۱۳۱،)
صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شرک کے معنی غیرِ خدا کو واجبُ الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا یعنی الوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بد تر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں ۔ (بہار شریعت، حصہ اول، ایمان وکفر کا بیان،۱/۱۸۳،چشتی)
علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اہلِ عرب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے لے کر عمرو بن لُحَیّ کے زمانہ تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عقائد پر ہی ثابت قدم رہے ، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ ابراہیمی کو تبدیل کیا اور اہلِ عرب کے لئے طرح طرح کی گمراہیاں شروع کیں ۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱/۱۸،چشتی)
شرک کے بانی عمرو بن لُحَیّ نے اہلِ عرب میں شرک اس طرح پھیلایا کہ مقامِ بلقاء سے بت لا کر مکہ میں نصب کئے اور لوگوں کو ان کی پوجا اور تعظیم کرنے کی دعوت دی۔ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص ’’لات‘‘ جب مر گیا تو عمرو نے اس کے قبیلے والوں سے کہا: یہ مرا نہیں بلکہ اس پتھر میں چلا گیا ہے پھر انہیں اس پتھر کی پوجا کرنے کی دعوت دی ۔ (عمدۃ القاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۱۱/۲۶۹-۲۷۰، تحت الحدیث: ۳۵۲۱،چشتی)
اِسی عَمرو نے سائبہ اور بحیرہ کی بدعت ایجاد کی اورتَلْبِیَہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو بھی شریک کیا ۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم ، ۱/۱۸)
یہ شخص دین میں جس نئی بات کا آغاز کرتا لوگ اسے دین سمجھ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ موسمِ حج میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا اور انہیں لباس پہنایا کرتا تھا اور بسااوقات وہ موسمِ حج میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا اور دس ہزار ناداروں کو لباس پہناتا ۔ (الروض الانف، اول ما کانت عبادۃ الحجر، اصل عبادۃ الاوثان، ۱/۱۶۶)
مرنے کے بعد اس کا انجام بہت دردناک ہوا، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحیّ خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا ہے ۔ (بخاری،کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲/۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱،چشتی)
مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر پکارنا شرک ہے ورنہ ہر گز شرک نہیں
یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی بھی عبادت کرنا شرک ہے ، اسی طرح مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر اسے پکارنا یا اس سے حاجتیں اور مدد طلب کرنا بھی شرک ہے البتہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ مانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی عطا سے مشکلات دور کرنے والا ، حاجتیں پوری کرنے والا اور مدد کے وقت مدد کرنے والا مانتا ہو اور اسی عقیدے کی بنیاد پر وہ بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندوں سے مشکلات کی دوری کے لئے فریاد کرتا ہو ، اپنی حاجتیں پوری ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہو یا مصیبت کے وقت انہیں مدد کے لئے پکارتا ہو تو ا س کا یہ فریاد کرنا ، مانگنا اور پکارنا ہر گز شرک نہیں ہو سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآنِ پاک میں غورو تفکر کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار و مشرکین کا اپنے بتوں سے متعلق عقیدہ یہ تھا کہ وہ بتوں کو معبود مانتے اور ان کی عبادت کرتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے : اِنَّہُمْ کَانُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَہُمْ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ۙیَسْتَکْبِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۵﴾ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍمَّجْنُوۡنٍ ۔ (الصافات ۳۵،۳۶)
ترجمہ : بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں ۔
اوراسی عقیدے کی بنیاد پر کفار بتوں سے اپنی حاجتیں طلب کرتے تھے ، اور آج بھی کسی انسان یا غیر انسان ، زندہ یا مردہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرنا ، اسے دور یا نزدیک سے پکارنا شرک ہے لیکن اگر کوئی یہ عقیدہ نہ رکھتے ہوئے یعنی معبود نہ مان کر کسی کو پکارے یا ندا کرے تو اس کے عمل کو مشرکوں جیسا عمل قرار دیتے ہوئے اسے بھی مشرک قرار دے دینا سراسر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جو پکارنا یا ندا کرنا شرک ہے وہ ہر حال میں شرک ہے چاہے انسان سے ہو یا غیر انسان سے ، زندہ سے ہو یا فوت شدہ سے ، دور سے ہو یا نزدیک سے اور جو ندا شرک نہیں وہ کسی بھی حال میں شرک نہیں ۔ ندا یا سوال کے شرک ہونے کا دارومدار پکارنے والے کے عقیدے پر ہے اگر وہ معبود اور خدا مان کر پکارتا ہے تو یہ شرک ہے اب چاہے دور سے پکارے یا نزدیک سے ، زندہ کو پکارے یا فوت شدہ کو اور اگر اس کا یہ عقیدہ نہیں توشرک ہر گز نہیں لہٰذا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پکارنا ہرگز شرک نہیں کیونکہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو معبود نہیں سمجھتا اور نہ ان کی عبادت کرتا ہے بلکہ ہر نماز میں وہ کئی بار یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہْ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور رسول ہیں ۔ یونہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو پکارنے والا ، ان سے سوال کرنے والا ، انہیں معبود سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ سمجھ کر اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے پکار سننے والا جان کر پکارتا ہے لہٰذا ا س کا یہ عمل بھی ہر گز شرک نہیں ۔
مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا
محترم قارئین : جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل خارجی فتہ کی طرف سے ہر وقت مسلمانان اہلسنت پر شرک اور مشرک کے فتوے بلا سوچے سمجھےجڑ دیئے جاتے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس موضوع پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا ہے فی الوقت یہ مختصر سا مضمون حاضر خدمت ہے شاید جہالت کی وجہ سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں میں سے کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے آیئے حدیث پاک پڑھتے ہیں یاد رہے اس حدیث پاک کی اسناد کو آئمہ حدیث نے حسن اور جیّد قرار دیا ہے حوالے موجود ہیں اللہ تعالیٰ خارجی فتنہ کے شر و فساد سے مسلمانوں کو بچائے آمین :
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان ممااخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی ؟ قال بل الرامی ۔
ترجمہ : یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا:فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔
یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا ۔
اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵، امجد اکیڈمی لاہور۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت،چشتی))
علاوہ ازیں یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے
(مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵) (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔ )(صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔)(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔)(شرح مشکل الآثار للطحاوی، جلد۲ صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔)(مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔)(کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔)(جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔)(جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔)(کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔)(ناصر الدین البانی غیر مقلد سلفی وہابی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲صفحہ۳۵۸۔،چشتی))
ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً :
ارشاد نبوی ہے : من کفر مسلما فقد کفر ۔ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳،چشتی)
مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
ترجمہ : جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا ۔ ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱،چشتی)
مزید ارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما ۔
ترجمہ : جس نے اپنے (مسلمان)بھائی کو کہا:اے کافر!… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)
یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال ۔
ترجمہ : جس نے بغیر تاویل کے اپنے (اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا ۔ (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱)
ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے ۔ العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اے بات بات پر مسلمانان اہلسنت کو اپنی جہالت کی وجہ سے کافر و مشرک کہنے والو اپنے ایمان کی فکر کرو کہیں تم خود کافر و مشرک تو نہیں ہو چکے ہو ، بغیر کفر و شرک ثابت کیئے کسی مسلمان کو کافر کہنے والو سوچو ۔
لغات میں شرک کسے کہتے ہیں اور اس کی مزید توضیح : ؟
لفظ شرک مصدر مشتق ہے اسکی اصل ، ش ، ر ، ک ، ہے لغت میں اس کے معنی حصہ یا سانجھے کے ہیں یہ لفظ مختلف سیاق وسباق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہ باب مفاعلہ سے بزنس پارٹنر شپ کے لیئے شراکتی کاروبار کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور باب تفعیل سے ایامِ تشریک مشہور لفظ ہے ۔
لفظ شرک بارگاەِ الوہیت میں حصہ یا برابری کے سیاق پر کہا جاتا ہے یعنی اللہ کے مقابلے پر کسی مخلوق کو خدا یا پھر خدا کی خدائی میں حصہ دار کہا جائے تو شرک کہا جاتا ہے شرک کی تعریف میں دو گروە ہیں پہلے ایک گروە کی تعریف پڑھیے :
(1) اللہ کی صفات مخلوق میں ماننا شرک کہلاتا ہے ۔
واضح رہے کہ شرک یہ تعریف تعریف ایسی کتابوں میں ہے جن میں وحدانیت کے نام پر شانِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کا مزاک اڑایا گیا ۔ خیر تعریف آپ نے پڑھ لی مگر اس تعریف میں ایک مسئلہ ہے وە یہ کہ جب ہم اللہ کی صفات غیر اللہ یعنی مخلوق میں دیکھتے ہیں تو شرک کا تدارک ممکن نہیں رہتا مثال کے طور پر :
اللہ سمیع ہے میں اور آپ بھی سمیع ہیں
اللہ بصیر ہے میں اور آپ بھی بصیر ہیں
یعنی اللہ بھی سنتا ہے میں اور آپ بھی سنتے ہیں
اللہ بھی دیکھتا ہے میں اور آپ بھی دیکھتے ہیں
تو کیا فرق رہا ؟
الوہیت تو ہر طرح کی مثلیت سے پاک ہے پھر یہ کیسے ؟
چلیں یہ عقل کی اختراع ہے میں کچھ امثال قرآن سے دیتا ہوں :
(1) الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العٰلَمينَ ۔ ترجمہ : تمام تعریفیں اللە کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ (سورہ فاتحہ)
وَقُل رَبِّ ارحَمهُما كَما رَبَّيانى صَغيرًا(الأسر) ۔ ترجمہ : اے اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرما بلکل ویسے جیسے انہوں نے مجھے پالا میرے بچپن میں ۔
لیجیے جناب یہاں "رب" کا لفظ اللە کی صفت بھی ہے اور ماں باپ کی بھی مگر ہیں دونوں قرآن سے اور ماں باپ کو "رب" اللہ ہی نے خود فرمایا ہے نہ کہ کسی اور نے ۔
(2) وَنَحنُ أَقرَبُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَريدِ (سورہ ق) ۔ ترجمہ : اور اللە ان کی شہ رگ سے زیادە قریب ہے ۔
النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم ۔ (سورہ الاحزاب) ۔ ترجمہ : نبی صلی الله علیہ وسلم موٴمنوں کی جان سے زیادە قریب ہیں ۔
اس مثال میں اللە بھی قریب ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم بھی اور اصولِ تفسیر کے علماٴ کہتے ہیں کہ "اولی" اقرب سے زیادە قرابت کے معنی رکھتا ہے ۔ لیجیے یہاں کہانی ہی اور ہے کیا کہا جاۓ گا ؟
(3) إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ۔ (سورہ البقرة) ۔ ترجمہ : بے شک اللە بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيم ۔
بے شک تمہارے پاس تشریف لاۓ اللہ کے رسول تمہارے ہی میں سے جو تمہارا مشقت میں پڑنا گوارە نہیں کرتے اور مومنوں پرمہربان ہیں اور رحم کرنے والے ۔ (سورہ توبہ)
لیجیے جناب ادھر تو اللہ عز و جل بھی رؤف و رحیم ہے اور اللہ عز وجل کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بھی رؤف و رحیم ۔
(4) لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ ۔ (سورہ الأنعام) ۔ ترجمہ : کوئی عبادت کے لائک نہیں مگر الله (جو) ہر چیز کا خالق ہے ۔
أَنّى أَخلُقُ لَكُم مِنَ الطّينِ (سورہ اٰل عمران) ۔ ترجمہ : عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ بے شک میں پیدا کرتا ہوں مٹی سے (پرندے) ۔
لیجیے جناب الله فرماتا ہے ہر چیزکو میں پیدا کرتا ہوں عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں میں پیدا کرتا ہوں ۔ ہے بھی قرآن کیا کہا جائے گا ؟ شرک ؟ نہیں بلکہ يه تو عین توحید ہے ۔
اہلِ مناطقہ سے ایک عرض ہے کہ ذرە ان آیات کو باالترتیب قضیہ اول اور قضیہ دوم پہ رکھ کر اقتضاۂ حال کا حال تو لکھیں ذرە میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کتنے بیس سو ہوتا ہے ۔ تو یقینا آپ کتابوں میں کی گئی غلط شلط تعریف کاحال دیکھ ہی چکے ہونگے اب آپ علمائے حق کی کی ہوئی تعریف پڑھیے اور اس تعریف اور اس من گھڑت شرک کی تعریف میں علمی فرق دیکھیئے :
(2) اللہ تعالیٰ جیسی صفات غیر اللہ میں ماننا خدا یا خدائی میں حصے دار سمجھ کر ۔
اگر آپ نے توجہ سے پڑھی ہے تعریف تو یقینا مزید وضاحت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیوں کہ حق کی خوبی یہی ہے اسے سمجھایا نہیں جاتا بلکہ سمنجھ آجاتا ہے خود ہي ۔
اب آپ پہلے ایک اصطلاح سمجھیئے : جس کے بعد آپ بآسانی سمجھ سکیں گے کہ پیچھے جو آیات میں نے بطورِ تمثیل ذکر کی ہیں ان میں اشکال جو هے وه کیسے حل ہو گا ۔ ایک ہوتا ہے حقیقت دوسرا ہوتا ہے مجاز ۔ اس اصطلاح کو یوں سمجھیئے کہ اوریجنل ڈاکومنٹس کو حقیقت اور فوٹو کاپی کو مجاز کہتے ہیں ۔
تعریف کچھ یوں ہے : اما الحقيقة فاسم لكل لفظ اريد به ما وضع له وحكمه وجود ماوضع له خاصا كان المكلفون و اما المجاز فاسم لما اريد به غيرما وضع له لمناسبة بينهما
وحكمه وجود مااستعيرله خاصاكان او عاما ۔ (متن نورالانوار صفحہ 98-99،چشتی)
ترجمہ : ہر وە شئی جس کا نام اس میں موجود خاصیت کی وجہ سے رکھا گیا ہو اسے حقیقت کہتے ہیں اور اگر کسی اور شیئ میں اسی طرح کی عارضی صفت پائی جاۓ اسے مجاز کہتے ہيں ۔ الفاظ کے فرق سے میر قطبی میں بھی یہی لکھا ہے ۔ (میر قطبی ص نمبر 183 طبع قدیم دہلی)
اب ان مثالوں کو سمجھیئے کہ حقیقی طور رب اللہ ہی ہے مگر پالنے کی مماثلت میں ماں باپ بھی کو اللہ نے رب فرمایا ہے ۔ ایسے ہی حقیقی خالق اللہ وحدە لا شریک ہے مگر اللہ کے عطا کردە معجزە سے عیسی علیہ السلام بھی پیدا کرتے تھے ۔ اسی طرح تمام امثال حقیقت اور مجاز کے تحت ہیں ۔ اسی قانون کے تحت انبیا علیہم السلام یا اولیاٴ سے استمداد اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو سکتی اللہ کی عطا کے سوا نا ممکن ہے تو پھر کیا اعتراض ہے کسی کو اللہ تعالیٰ کےمحبوب صلی الله علیہ وسلم کے مشکل کشا ہونے پر ؟ کہ وە ذاتی نہیں عطائی ہے من اللہ ہے اور جب مان ہی اللہ کا دیا ہوا رہے ہیں تو شرک کیسا ؟
ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ معطی و انا قاسم ۔ یعنی اللہ دیتا ہے اور میں بانٹتا ہوں ۔ (صحیح بخاری)
یقین ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شرک کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جیسی صفات نہ کہ اللہ کی صفات غیر اللہ میں ماننا شرک ہوتا ہے ۔
قرآن میں اسی طرح اللہ جیسی صفات کو کسی بت یا بندے میں ماننے سے منع کیا گیا ہے قرآن نے شرک کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں مضمون پہلے ہی کافی طویل ہو گیا ہے اب صرف اجمالی طور ذکر کرکے مثال پش کردیتا ہوں :
(1) شرک بمعنی حصه
أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ ۔ (سورہ فاطر) ۔ ترجمہ : کیا ان بتوں کا آسمانوں میں حصہ ہے؟
اسی طرح سورە روم میں آیت نمبر ٢٨
سورەٴ زمر آیت نمبر ٢٩
سورەٴ نساٴ آیت نمبر ١١٢
سورەٴ بقرە آیت نمبر ٢٢١
سورەٴ توبہ آیت نمبر ١٧
(2) دوسرا معنی شرک بمعنی سانجھہ یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا یہ کفر سے خاص ہے اور قرآن میں یہ معنی سب سے زیادە مراد لیا جاتا ہے مثال : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فيما اتهُما ۔ (سورہ الأعراف) ۔ ترجمہ : اور ان دونوں نے برابر کردی وە نعمت جو رب نے انہیں دی ۔
اس کے علاوە
سورەٴ انعام آیت نمبر ١٢٨
سورەٴ لقمان آیت نمبر ١٣
سورەٴ یوسف آیت نمبر ١٠٢
وغیرہم سینکڑوں آیات میں شرک خاص مراد ہے
(3) تیسرا معنی یہ ہے کہ خود زمانے کو موثر ماننا یہ بعض مشرکین کا عقیدە تھا اس زمانے میں جن کو دھریہ یا نیچری کہا جاتا ہے ۔
وَقالوا ما هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ۔ (سورہ الجاثية) ۔ ترجمۃ وە بولے خدا تو نہیں ہےمگر یہی دنیا ہے کہ ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں اور انكو علم نہیں ۔
وە آیات جن میں عالم کے عجائبات پرغور و فکركا حکم ہے اِنہیں دھریے قسم کے لوگوں کے لیئے ہیں ۔
(4) چوتھا یہ کہ ہر چیز کا خالق تو اللہ ہے مگر وە وە ایک بار پیدا کر کے تھک گیا ہے ۔ (نعوذ با اللہ)
اور اب جہان کو چلانے والے ہمارے بت ہیں مشرکین مکہ میں کچھ لوگ بھی يه عقیدە رکھتے تھے ۔ جس کی تردید میں یہ آیات نازل ہوئیں : وَلَقَد خَلَقنَا السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ وَما مَسَّنا مِن لُغوبٍ ۔ (سورہ ق)
ترجمہ : اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمیں اور کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور ہم کو تھکاوٹ نہ ہوئی ۔
اسی مضمون کی دیگر آیات ان سورتوں میں موجود ہیں
سورەٴ ق آیت نمبر ١۵
سورەٴ احقاف آیت نمبر ٣٣
سورەٴ یٰسین آیت نمبر ٨٦
(5) شرک کی پانچویں قسم کہ عالم کا مالک و خالق تو اللہ تعالیٰ ہے مگر اتنے بڑے جہان کو وە اکیلا نہیں چلا سکتا جیسے دنیا میں بادشاە محکمے بانٹ دیتے ہیں وزیروں کو ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ بتو میں خاص کر دیئے ہیں بارش ٬ رزق ٬ دھوپ ٬ہوا وغیرە کے لیئے اس عقیدے کے رد کے لیئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَما يُؤمِنُ أَكثَرُهُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِكونَ ۔ (سورہ يوسف)
ترجمہ : ان مشرکین میں بہت سے ایسے ہیں جو کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں مگر شرک کرتے ہوئے ۔
اس قسم کے مشرکین کےلیئے مزید ان آیات میں تنبیہات ہیں
سورەٴ عنکبوت آیت نمبر ٦١
سورەٴ مومنون آیت نمبر ٨٨
سورەٴ زخرف آیت نمبر ٩
سورەٴ مومنون آیت نمبر٨۵
اور بہت سی دیگر آیات تو دوستو شرک تمام حقیقت فقیر نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے
ان میں کوئی آیت نہ انبیا علیہم السّلام کو پکارنے کو شرک قرار دیتی ہے نا اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی مشکل کشائی کو تو عجیب ہیں وە لوگ جو محض جہالت کے کے زور پر شرک کا رٹہ لگاتے ہیں اور میں یقین سے کہتا ہوں اگر آپ اس بندے سے شرک تعریف ہی پوچھ لیں تو چپ لگے گی کہ کبھی منہ نہ کھلے گا اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکو کاروں میں رکھے اور جملہ فتنوں سے بچائے آمین
شرک کی اقسام شرک کی تین اقسام ہیں
(1) شرک فی العبادۃ
(2) شرک فی الذات
(3) شرک فی الصفّات
(1) شرک فی العبادۃ سے مُراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مستحقِ عبادت سمجھا جائے ۔
(2) شرک فی الذات سے مُراد ہے کہ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ جیسا ماننا، جیسا کہ مجوسی دوخداؤں کو مانتے تھے۔
(3) شرک فی الصفّات سے مراد کسی ذات و شخصیت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ جیسی صفات ماننا شرک فی الصفّات کہلاتا ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ جیسی صفات کسی نبی علیہ السلام میں مانی جائیں ... یا ... کسی ولی علیہ الرحمہ میں تسلیم کی جائیں ، کسی زندہ میں مانی جائیں ... یا ... فوت شدہ میں ،
کسی قریب والے میں تسلیم کی جائیں ... یا ... دور والے میں ، شرک ہر صورت میں شرک ہی رہے گا جو ناقابلِ معافی جرم اور ظلمِ عظیم ہے ۔ شیطان شرک فی الصفّات کی حقیقت کو سمجھنے سے روکتا ہے اور یہاں اُمّت میں وسوسے پیدا کرتا ہے لہٰذا قرآن مجید کی آیات سے اس کو سمجھتے ہیں ۔
(1) اللہ تعالیٰ رؤف اور رحیم ہے : اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ۔
ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر رؤف اور رحیم ہے ۔ (سورۂ بقرہ 2، آیت 143)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رؤف اور رحیم ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ذکرہے کہ : لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ م بِالْمُؤْ مِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّ حِیْمٌ ۔ ترجمہ : بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں (بھاری) ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مومنوں پر ’’رؤف اور رحیم‘‘ ہیں ۔ (سورۂ توبہ، آیت 128 پارہ 11،چشتی)
پہلی آیت پر غور کریں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ رؤف اور رحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں پھر دوسری آیت میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤف اوررحیم فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہوگیا ؟
اس میں تطبیق یوں قائم ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر رؤف اور رحیم ہے جب کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے رؤف اور رحیم ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہو جائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا۔
(2) علمِ غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ ترجمہ : تم فرماؤ اللہ کے سوا غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔ (سورۂ نمل، آیت 65 پارہ 20)
جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکر ہے کہ : عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ۔ ترجمہ : غیب کاجاننے والا اپنے غیب پر صرف اپنے پسندیدہ رسولوں ہی کو آگاہ فرماتاہے ہر کسی کو (یہ علم) نہیں دیتا ۔ (سورۂ جن، آیت 26/27 پارہ 29)
علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پہلی آیت سے یہ ثابت ہوا مگر دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو بھی عطا کیا ہے تو کیا یہ شرک ہو گیا ۔
اس میں تطبیق یوں قائم ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عالم الغیب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں لہٰذا جہاں ذاتی اورعطائی کا فرق واضح ہو جائے وہاں شرک کا حکم نہیں لگتا ۔
(3) مدد گار صرف اللہ تعالیٰ ہے : جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں فرماتاہے کہ : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔ ترجمہ : یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مددگار اللہ ہے ۔
(سورۂ محمد ، آیت 11 پارہ 26)
جبکہ قرآن کریم ہی میں ذکرہے کہ : فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْ مِنِیْنَ
ترجمہ : بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اورجبریل اور نیک مومنین مددگار ہیں۔
(سورۂ تحریم ، آیت 4 پارہ 28)
پہلی آیت پر غور کریں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے پھر دوسری آیت میں جبریل اوراولیاء اللہ کو مددگار فرمایا گیا، تو کیا یہ شرک ہو گیا ؟
اس میں تطبیق یوں قائم ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طو ر پر مددگار ہے اورحضرت جبریل علیہ السلام وراولیاء کرام ، اللہ تعالیٰ کی عطا سے مددگار ہیں ۔
جو ذات باری تعالیٰ عطا فرما رہی ہے اس میں اور جس کو عطا کیا جا رہا ہے ان حضراتِ قدسیہ میں برابری کا تصور محال ہے اور جب برابری ہی نہیں تو شرک کہاں رہا ؟
خوب یاد رکھیں : کہ جہاں باذنِ اللہ اورعطائی کا فرق آجائے وہاں شرک کا تصوّر محال اور ناممکن ہو جاتا ہے ۔
اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم شرک پر متفق نہیں ہو گی ۔ جیساکہ بخاری شریف میں ہے کہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا بیشک میں تمہارا سہارا اورتم پر گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اوربیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اوربے شک مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے جال میں پھنس جاؤ گے ۔ (بخاری شریف جلد اول، کتاب الجنائز، رقم الحدیث1258 ص 545 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)۔
امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور شرک
دورحاضرمیں خارجی نئے ناموں اور نئے لباس میں سامنے آ چکے ہیں ، شرک و بدعت کا نام لے کر ، اپنے گمراہ کن عقائد باطلہ کو ہمارے بھولے بھالے مسلمانوں میں پھیلا کر ان کے قلوب سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زوال کے لئے مصروف عمل ہیں حالانکہ ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کریمہ بھی ہوتی ہے،کہ امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی شرک کرہی نہیں سکتی جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں : صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی قَتْلَی أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِی سِنِینَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْیَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ إِنِّی بَیْنَ أَیْدِیکُمْ فَرَطٌ وَأَنَا عَلَیْکُمْ شَہِیدٌ وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ وَإِنِّی لَأَنْظُرُ إِلَیْہِ مِنْ مَقَامِی ہَذَا وَإِنِّی لَسْتُ أَخْشَی عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا وَلَکِنِّی أَخْشَی عَلَیْکُمْ الدُّنْیَا أَنْ تَنَافَسُوہَا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آٹھ برس کے بعد احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی ،جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو رخصت کرتا ہے پھر واپس آکر منبر پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ : میں تمہارا پیش خیمہ ہوں تمہارے اعمال کا گواہ ہوں اور میری اور تمہاری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی اور میں تو اسی جگہ سے حوض کو ثر کو دیکھ رہا ہوں مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو ۔ (بخاری شریف۔ رقم الحدیث3736۔ جلد 12 صفحہ 436۔مکتبۃالشاملۃ)۔(صحیح بخاری صفحہ 993 دار ابن کثیر بیروت)
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطاء کی گئیں ، مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔ (صحیح بخاری صفحہ 885 دار ابن کثیر بیروت)
فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : مجھے اس بات کا خوف نہیں میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر رشک و حسد نہ کرنے لگو گے ۔(صحیح مسلم صفحہ 1149 دارالفکر بیروت)
محترم قارئین : ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اعلان فرمادیا ،کہ میری امت سے مجھ کو شرک کا خوف نہیں ہے
پھر آج گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ٹولہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اقدس کے خلاف جا کر آپ (علیہ السلام) کی امت پر شرک کے الزامات کیوں لگاتا ہے ؟ آخرکچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے چنانچہ اس سلسلے میں یہ حدیث کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں حضرت حذیفۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اِنَّ مَا اَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ قَرَۃَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُءِیَتْ بَھْجَتُہُ عَلَیْہِ وَ کَانَ رِدْءًا لِلْاِسْلَامِ غَیْرَہُ اِلَی مَاشَاءَ اﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْہُ وَ نَبَذَہُ وَرَاءَ ظُھْرِہِ وَ سَعَی عَلَی جَارِہِ بِالسَّیْفِ وَرَمَاہُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اﷲِ، اَیُھُمَا اَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِیُّ اَمِ الرَّامِی قَالَ : بَلِ الرَّامِی ۔
ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اوراس پر شرک کا الزام لگایا راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ،کہ اے اﷲ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا ؟ شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،کہ شرک کا الزام لگانے والا ۔ ( صحیح ابن حبان ۔رقم الحدیث81۔جزء 1۔صفحہ157۔مکتبۃالشاملۃ)
مذکورہ بالا دو احادیث کریمہ آپ بغورمطالعہ فرمائیں ، تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی ، کہ جو لوگ شرک و بدعت کے نعرے لگا کراس کی آڑ میں لوگوں کوگمراہی پر مائل کرتے ہیں درحقیقتا یہی لوگ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موجب ہیں ، یعنی یہی لوگ مرتکب شرک ہوتے ہیں ۔ نہ صرف مرتکب شرک ، بلکہ یہی لوگ ، جناب رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کے سلسلے میں بھی منکر ہوتے ہیں ، چہ جائیکہ وہ کتنی ہی نمازیں کیوں نہ پڑھ لیں ، کتنی ہی عبادات کیوں نہ کرلے ، مگر دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن نہ ہونے کی بنا پردخول فی الاسلام سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ یاد رہے کہ ایمان و اسلام کا تعلق عشق ومحبت پرمبنی ہے یعنی اسلام و ایمان تب ہی معتبر ہے جب دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو ورنہ اگرفقط عبادات کو معیار بنایا جائے اور دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہو ، تو واضح رہے کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ عبادات ، اگرکسی نے کی ہے ، تو وہ شیطان ہے ، جس کا اتنا مرتبہ تھا کہ وہ معلم الملائکۃ کہلایا جاتا تھا ، یعنی ملائکہ کو علم سکھاتا تھا ، لیکن بارگاہ الٰہی سے اگر مردودوملعون ہوابھی ، توفقط اسی وجہ سے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کے نبی علیہ السلام کی تعظیم نہ کی ۔
یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے ۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں عدم شرک دنیا پرستی اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے ۔ پس معنی یہ ہوگا اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں تو
پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے ۔
آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے ۔ آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے اور جو حضور نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرامینِ اقدس کو جھوٹا کہے یا اپنے دلائل دے کر جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرے اس پر اللہ عزوجل ، اس کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ۔ خارجیوں سے ہوشیار رہیں اور قطعی طور پر ان سے کوئی حدیث قبول نہ کریں کیونکہ حدیث کی آڑ میں یہ لوگ فتنہ خارجیت کا غلط انجکشن آپکو لگا کر آپکا ایمان برباد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔
کیا مسلمان شرک کر سکتے ہیں ؟
آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ،امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔
اعتراض: جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ازالہ اعتراض : سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟؟؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ کرام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔
اعتراض : فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے “" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
ازالہ اعتراض : آپ کی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں جوابا عرض ہے کہ : امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
(۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔ (بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)
(۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔ (مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ، مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ، ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ، بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی )
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
(۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔ حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا ۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔
(۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔ ( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶، مطبوعہ دارالمعرفۃ) اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔
ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے
(۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔ حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸، سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹، کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰) امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
احادیث کریمہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ امت مسلمہ کا شرک جلی میں پڑنے کا کوئی خطرہ نہیں، اب مزید ایک حدیث اس حوالے سے پیش کی جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو جام توحید پلایا اس کا خمار کب تک باقی رہے گا ؟
عن حذیفہ رضی اللہ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم : یدرس الاسلام کما یدرس و شی الثوب حتی لا یدری ما صیام و لا صدقۃ ولا نسک ، س یسری علی کتاب اللہ فی لیلۃ فلا یبقی فی الارض منہ ایۃ ، و یبقی طوائف من الناس الشیخ الکبیر والعجوز الکبیرۃ یقولون ادرکنا اباءنا علی ھذہ الکلمۃ لا الہ الا اللہ فنحن نقولھا ۔ قال صلۃ بن زفر لحذیفۃ : فما تغنی عنھم لا الہ الا اللہ و ھم لا یدرون ما صیام و لا صدقۃ و لا نسک؟
فاعرض عنہ حذیفۃ فرددھا علیہ ثلاثا ، کل ذلک یعرض عنہ حذیفۃ ثم اقبل علیہ فی الثالثتہ فقال: یا صلۃ تنجیھم من النار ۔ ( مستدرک للحاکم جلد ۵ ص ۶۶۹ حدیث نمبر ۸۵۰۸ ، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۰۴۹ ، کتاب النہایہ فی الفتن لابن کثیر جلد ۱ ص ۳۰)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا ، روزہ کیا ہے؟ صدقہ کیا ہے؟ اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی ، زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ، ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لاالہ الااللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہہ رہے ہیں۔
حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہو گا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا ؟
حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا، اے صلہ یہ کلمہ ان کو نار جہنم سے نجات دے گا۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث شریف میں جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات نہیں آئے ہیں ، ابھی تو نمازیوں سے مساجد بھری ہیں ، روزے دار روزے رکھتے ہیں آج کے حالات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہوں گے جب نماز روزے کا نام بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہو گا۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا کلمہ بھی معتبر ہو گا، چنانچہ آج کے مسلمانوں پر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکان تو خدائی کے جھوٹے دعویٰ کا بھی ہے ۔ معاذ اللہ
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرا دینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے ، وہ امت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کرنے والی ذات وحدہ لاشریک لہ کے بارے میں شرک کیسے برداشت کر سکتی ہے؟
ویسے بھی جب تک قرآ ن مجید امت کے پاس موجود ہے شرک جلی کا امت میں اگرچہ امکان ہے مگر پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر امکان تو معاذ اللہ یہ بھی ہے کہ کوئی الہ ہونے کا دعویٰ کر دے لیکن اس امکان کی بنیاد پر یہ درست نہیں ہے کہ امت پر یہ الزام لگایا جائے کہ یہ امت خدائی کی دعویدار ہے معاذ اللہ ایسا اگر کسی نے دعویٰ کیا تو فوراً امت سے نکل جائے گا ایسے ہی شرک جلی کی امکانی صورت اگر واقع میں پائی گئی تو ایسا نہیں ہو گا وہ امت دعوت میں بھی رہے اور مشرک بھی ہو بلکہ فوراً امت سے نکل جائے گا، پہلی امتوں میں جو بدعملی تھی اس کا اس امت میں آجانا معاذ اللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتوں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں شرک آنا ہر گز نہیں ہے، ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پاک ہے، ان امتوں میں بگاڑ آیا تو انبیا ء کرام مبعوث ہوتے رہے لیکن اب کوئی نبی نہیں آنا ، اور یہ امت آخری امت ہے لہٰذا پہلی امتوں جیسی شرک کی بیماری اس امت کا مسئلہ نہیں ہے اگر تھوک یعنی ہول سیل کے لحاظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا ، افسوس ہے کچھ لوگوں کے بقول "آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شرک مسلمانوں میں پایا گیا ہے ۔
ت، امت توحید ہے اور شرک میں پڑنا اس امت کا مسئلہ نہیں ہے ۔
مسلم و مشرک:
فتنون کا دور ہے اور یہ فتنے کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کے دور سے ہی شروع ہوگئے تھے امام بخاری علیہ رحمہ نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خارجیوں کو کائنات کی بدترین مخلوق گردانتے تھے کیونکہ وہ خارجی کفار کہ حق میں وارد شدہ آیات کو پڑھ پڑھ کر مومنین پر چسپاں کیا کرتے تھے ۔۔
وہ خارجی اپنے زعم میں توحید پرست اوراپنی توحید
کو صحابہ کرام کی توحید سے بھی کامل اور اکمل سمجھنے والے تھے اور یوں وہ توحید کہ اصل اور حقیقی ٹھیکدار بنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور ایک طبقہ آج کہ دور کا ہے ، جسکا بھی بعینیہ وہی دعوٰی ہے کہ سوائے انکے کوئی موحد و مومن ہی نہیں لہذا اس طبقہ کواورکوئی کام ہی نہیں سوائے اس کے یہ بھی قرآن اور حدیث کو فقط اس لیے کھنگالتے ہیں کہ کہیں سے انکو امت مسلمہ کہ جمہور پر کفر و شرک کا حکم لگانے کی کوئی سبیل میسر آجائے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
معزز قارئین کرام کیا آپ نے کبھی ہلکا سا بھی تدبرکیا ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا قول پر ؟؟؟
کیا ہے تو آپ پر صاف ظاہر ہوجائے گا کہ اس وقت کہ نام نہاد توحید پرست خارجی کس قدر دیدہ دلیر تھے کہ وہ اپنی توحید میں خود کو صحابہ کرام سے بھی بڑھ کرسمجھتے تھے تبھی تو وہ اسلام کے خیر القرون کے دور کےاصحاب اور تابعین مسلمانوں پر شرک کہ فتوے لگاتے تھے قارئین کرام کیا آپ امیجن کرسکتے ہیں کہ اسلام کہ ابتدائی دور میں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ بہترین جماعت یعنی صحابہ کرام موجود ہوں اور پھر انھی کے شاگرد یعنی تابعین کرام کا طبقہ بھی موجود ہو جو کہ براہ راست صحابہ کرام سے فیض حاصل کررہا ہو اور چند نام نہاد توحید پرستوں کا ٹولہ اٹھے اور توحید کے پرچار کے زعم میں اس پاکیزہ جماعت پرکفر و شرک کے بے جا فتوے لگانا شروع کردے آپ ان کی دیدہ دلیری دیکھیئے ہٹ دھرمی اور جرات کو دیکھیئے اور سر دھنیے انکی توحید پرستی پر۔
اب اتے ہیں اصل مدعا پر دیکھا گیا ہے کہ انـٹرنیٹ پر اسی طبقہ کی اکثریت سورہ یوسف کی آیت نمبرایک سو چھ کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہے اور یوں زمانہ خیر القرون کے خارجیوں کی طرح یہ آیت جگہ جگہ نقل کرکے آج کہ دور کے مومنین پر چسپاں کرتے ہوئے انھے کافر و مشرک قرار دینے میں دھڑا دھڑ مصروف عمل ہے لہذا یہ لوگ اس کام کو کچھ اس دلجمعی اور سرعت سے انجام دے رہے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑا کار ثواب ہو ۔
تو آئیے معزز قارئین کرام اس آیت سے انکے باطل استدلال کی قلعی کھولیں اور جو مغالطہ دیا جاتا ہے اس کا پردہ چاک کریں لیکن اس سے بھی پہلے ایک بدیہی قاعدہ جان لیں کہ عربی کا مشھور مقولہ ہے کہ الاشیاء تعرف باضدادھایعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ایک قاعدہ یہ بھی ہے اجتماع ضدین محال ہے یعنی دو ایسی اشیاء جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہوں انکا بیک وقت کسی ایک جگہ پایا جانا ناممکن ہے یعنی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی شخص بیک وقت مومن ومسلم بھی ہو اور مشرک و کافر بھی ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ اسلام اور کفر ضد ہیں اور توحید اور شرک آپس میں ضد ہیں اور ایک شخص مسلم تب بنتا ہے جبکہ وہ توحید پر ایمان لے آئے یعنی اللہ کی واحدانیت پر لہذا جب کوئی اللہ کی واحدانیت پر ایمان لے آئے تو تبھی وہ حقیقی مومن ہوگا اور وہ ایک حالت یعنی حالت توحید میں ہوگا اب اسے بیک وقت مومن بھی کہنا اور مشرک بھی کہنا چہ معنی دارد؟؟؟ یا تو وہ مسلم ہوگا یا پھر مشرک دونوں میں کسی ایک حالت پر اسکا ایمان ہوگا اور ایمان معاملہ ہے اصلا دل سے ماننے کا اور یقین رکھنے کا اور پھر اسکے بعد اس کا بڑا رکن ہے زبان سے اقرار ۔
خیر یہ تو تمہید تھی بات کو سمجھانے کی اب آتے ہیں سورہ یوسف کی مزکورہ بالا آیت کی طرف ۔۔۔
معزز قارئین کرام آپ سورہ یوسف کی اس آیت کی تفسیر میں امہات التفاسیر میں سے کوئی سی بھی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں کہ تقریبا سب مفسرین نے یہ تصریح کی ہے یہ آیت مشرکین مکہ کی بابت نازل ہوئی لہذا ہم بجائے تمام مفسرین کو نقل کرنے کہ فقط اسی ٹولہ کہ ممدوح مفسر یعنی امام حافظ ابن کثیر علیہ رحمہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں جو کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ہیں۔ آپ اپنی تفسیر میں اسی آیت کہ تحت رقم طراز ہیں کہ :
وقوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِٱللَّهِ إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } قال ابن عباس: من إِيمانهم أنهم إِذا قيل لهم: من خلق السموات، ومن خلق الأرض، ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد وعطاء وعكرمة والشعبي وقتادة والضحاك وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم، وفي الصحيحين: أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك. وفي صحيح مسلم: أنهم كانوا إِذا قالوا: لبيك لا شريك لك، قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم: " قد قد " أي: حسب حسب، لا تزيدوا على هذا.
مفھوم : آپ دیکھیئے معزز قارئین کرام کہ امام ابن کثیر نے پہلے اس آیت کی تفسیر میں قول ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ انکا یعنی مشرکین کا ایمان یہ تھا کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان اور پہاڑ کس نے پیدا کیئے ہیں تو وہ کہتے کہ اللہ نے مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھراتے۔اور اسی طرح کا قول مجاہد ،عطا،عکرمہ ،شعبی،قتادہ ،ضحاک اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم سے بھی ہے ۔
جبکہ صحیحین میں روایت ہے کہ : مشرکین مکہ حج کہ تلبیہ میں یہ پڑھتے تھے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ جسے تونے خود شریک بنایا اور تو اسکا بھی مالک ہے اور صحیح مسلم میں مزید یہ ہے کہ جب مشرک ایسا کہتے تو یعنی کہ لبیک لا شریک لک تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے کہ بس بس ،بس اسی قدر کافی ہے اس کہ آگے مت کہو
معزز قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ اس آیت کا بیک گراؤنڈ کیا تھا اور یہ کیونکر اور کن کے بارے میں نازل ہوئی ؟ تمام مفسرین نے بالاتفاق اس آیت کہ شان نزول میں مشرکین کہ تلبیہ والا واقعہ نقل کرکے اس آیت کی تفسیر کی ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ کی اکثریت سمیت منافقین مدینہ کی اقلیت تھی کہ جو کہ اس آیت کا حقیقی مصداق بنے، کہ وہی لوگ اس وقت اکثریت میں تھے نہ کہ مسلمان جیسا کہ خود آیت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی مشرک ہے تو اس وقت جن لوگوں کی اکثریت تھی وہ مشرکین مکہ اور منافقین تھے نہ کہ اس وقت کہ حقیقی مسلمان جو کہ صحابہ کرام تھے معاذاللہ اگر آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرستوں کہ کلیہ کہ مطابق اس آیت کا اطلاق کیا جائے تو یہ تہمت اور بہتان سیدھا جاکر صحابہ کرام پر وارد ہوتا ہے کہ آخر اس وقت کون لوگ تھے جو ایمان والے تھے ؟؟؟ ظاہر ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت صحابہ کرام ہی ایمان والے تھے مگر کیا اس آیت کی رو سے صحابہ کرام کی اکثریت مشرکوں کی تھی نعوذباللہ من ذالک نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ تھا بلکہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ یہ آیت درحقیقت مشرکین مکہ اور منافقین کی مذمت میں نازل ہوئی جو کہ حقیقت میں مسلمانوں کہ مقابلہ میں اکثریت میں تھے اور اس آیت میں جو لفظ ایمان آیا ہے یعنی ان مشرکوں کو جو ایمان رکھنے والا کہا گیا تو وہ محض لغوی اعتبار سے ایمان والا کہا گیا ہے نہ کہ شرعی اور حقیقی اعتبار سےکیونکہ وہ لوگ اللہ پاک کی خالقیت اور ربوبیت کا چونکہ اقرار کرتے تھے لہذا انکے اس اقرار کرنے کی باعث انکے اس اقرارپرصوری اعتبارسے لفظ ایمان کا اطلاق اللہ پاک نے کیا ہے لہذا وہ لوگ اللہ کی خالقیت اور رزاقیت اور مالکیت اور ربوبیت کا تو اقرار کرتے تھے مگراکیلے اللہ کی معبودیت کا اعتراف نہیں کرتے تھے اسی لیے اپنے تلبیہ میں اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا الزام بھی نعوذباللہ من ذالک
اللہ کی ذات پر دھرتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں اور جن کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ شریک ہمارے لیے تو نے خود بنایا ہے لہذا ہم اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ تیرے بنانے سے تیرا شریک ہے اور توہی اس کا بھی مالک ہے ۔
جب کہ آج کہ دور میں کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی غیر اللہ کسی نبی ولی یا نیک شخص کی عبادت نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر فلاں نبی یا ولی تیرے خاص شریک ہیں کہ تو انکا مالک بھی ہے اور تونے انھے ہمارے لیے اپنا شریک خود بنایا ہے نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم
طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کہ دور کہ نام نہاد توحید پرست سورہ یوسف کی اس آیت کو ان معنی میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھی مشرک ہوسکتا ہے جبکہ ہمارا دعوٰی ہے کہ اگر کوئی کلمہ گو کوئی ایسا اعتقاد رکھے کہ جس سے شرک لازم آتا ہو یعنی اس سے لزوم کفر ثابت ہوتا ہو تو اس کلمہ گو کو اس کے اس اعتقاد کی لزومیت کفر سے آگاہ کیا جائے اگر پھر بھی وہ اس پر اڑا رہے اور اپنے اس کفر پر التزام برتے تو اس کا یہ کفرلزوم سے نکل التزام کفر کے معنی میں داخل ہوکر اس معین شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کردئے گا پھر اسے کافر یا مشرک یا پھر مرتد کہیں گے نہ کہ بیک وقت مسلمان بھی اور مشرک بھی اور یہ ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ جس سے ادنٰی سی عقل رکھنے والا انسان بھی واقف ہوگا چناچہ اسی بات کو مشھور ویب بیسڈ جریدے کے ممشھور سلفی رائٹر جناب حامد کمال الدین نے اپنی کتاب نواقض اسلام میں کچھ یون واضح کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
یہاں ”کلمہ گو“ والی غلط فہمی کا ازالہ ایک بار پھر ضروری ہے۔ نواقض اسلام کہتے ہی ان باتوں کو ہیں جو کسی شخص کو اسلام سے خارج کر دیں یعنی کلمہ گو کو کلمہ گو نہ رہنے دیں۔ نواقضِ اسلام ہیں ہی وہ باتیں جو آدمی کے کلمہ گو ہونے کو کالعدم کردیں۔ نواقض اسلام کسی کافر کو اسلام سے خارج کرنے والی باتوں کو نہیں کہا جاتا! بلکہ نواقض اسلام تو عین وہ باتیں ہیں جو کسی ”کلمہ گو“ کو کافر قرار دینے کیلئے علماءاور ائمہ نے بیان کی ہیں۔ پس یہ بات جان لینے کے بعد اس امر کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپ کسی کلمہ پڑھنے والے شخص کو طاغوت کی مسند پر دیکھیں یا کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے پائیں تو اسے ”بہرحال مسلمان“ کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوں، کیونکہ وہ آپ کے خیال میں کلمہ پڑھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
برصغیر کے بعض موحد حلقوں میں __کسی شخص کو ’مشرک‘ تو نسبتاً بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے (کسی کو ایک خاص فرقے کی مسجد میں محض آتے جاتے بھی دیکھ لیا تو جھٹ سے ”مشرک“ کہہ ڈالا!) مگر جب اس کو ”کافر“ کہنے کا سوال آئے تو تب یہ لوگ ’محتاط‘ ہونا ضروری سمجھتے ہیں! حالانکہ ان دونوں باتوں کے لئے ایک ہی درجہ کی احتیاط لازم ہے، کیونکہ یہ دونوں باتیں دراصل لازم وملزوم ہیں۔
جتنا کسی کو ”کافر“ قرار دینا خطرناک ہے اتنا ہی اُس کو ”مشرک“ قرار دینا خطرناک ہے۔ ہر دو کی سنگینی ایک سی ہے۔
یہ عجیب ماجرا ہے کہ ہمارے ایک خاص طبقے کے ہاں کسی شخص کو ’مشرک‘ کہہ دینے میں کسی ”احتیاط“ یا کسی ”توقف“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ تمام کی تمام احتیاط یہ لوگ اس ”مشرک“ کو ”کافر“ سمجھنے کیلئے پس انداز رکھتے ہیں! جبکہ معاملہ یہ ہے کہ احتیاط دراصل پہلا قدم اٹھانے کے وقت ہی درکار ہے۔
قاعدہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ہر وہ شخص جس سے شرک کے زمرے میں آنے والا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فوراً مشرک نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے کفر کا کوئی فعل سرزد ہو اُس کو فی الفور کافر نہیں کہہ دیا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس سے فسق کا کوئی کام سرزد ہو اُس کو معاً فاسق اور جس سے بدعت کا کوئی کام ہو اس کو جھٹ سے بدعتی نہیں کہہ دیاجائے گا۔ حکمِ مطلق بیان کرنا (کہ فلاں اعتقاد یا فلاں رویہ رکھنے والے شخص کا شریعت کے اندر یہ حکم ہے ایک چیز ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر کسی متعین شخص پر وہ فتویٰ لگا دینا ایک اور چیز۔
کسی شخص کے ایسے فعل کی بنا پرجو ہمارے نزدیک شرک کے زمرے میں آتا ہے، اس کو مشرک قرار دینے کی کچھ شروط ہیں: وہ اپنے اس فعل کا مطلب جانتا ہو۔ اس پر حجت قائم کر دی گئی ہو۔ اس کی لاعلمی یا شبہات واشکالات اور تاویلات کا علمی انداز سے ازالہ کر دیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ جتنی احتیاط ہوسکے وہ یہیں پر، یعنی کسی کو مشرک قرار دیتے وقت، کی جانا ہوتی ہے۔ ’توقف‘ کا اصل مقام یہ ہے۔ لیکن اگر اس سے گزر جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور آپ اُس شخص کو ”مشرک“ ہی قرار دے ڈالتے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ یہ شخص ”مشرک“ تو ہو گیا ہے مگر ہے یہ ”مسلمان“، البتہ ایک مضحکہ خیز امر ہے۔
حق یہ ہے کہ جب آپ نے کسی کو ”مشرک“ کہہ ڈالا تو اُس کو ”کافر“ کہنے میں آپ نے کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی۔ ”احتیاط“ ضروری ہے تو وہ اُس کو مشرک کہتے وقت ہی کر لیا کریں۔ ”شرکِ اکبر“ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور ابدی جہنم کا مستحق۔
اس غلط فہمی کے باعث لوگوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سب مشرک کافر نہیں ہوتے! گویا بعض مشرک مسلمان ہوتے ہیں اور بعض مشرک کافر!
اصل قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ کلمہ گو شخص جو شرک کے زمرے میں آنے والے کسی فعل میں پڑ جائے اس کو تب تک مشرک نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اہل علم کے ہاتھوں اس پر حجت قائم نہ ہو جائے اور اس پر مشرک ہونے کا باقاعدہ حکم نہ لگا دیا جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوجاتا اس کے اس شرکیہ فعل کو شرک تو برملا کہا جائے گا اور اس شرک سے اس کو روکا بھی ضرور جائے گا مگر اس شخص کو ”مشرک“ کہنے سے احتیاط برتی جائے گی۔ البتہ جب وہ شرعی قواعد وضوابط کی رو سے اہل علم کے ہاتھوں مشرک ہی قرار دے دیا جائے تو اس وقت وہ دائرۂ اسلام سے خارج بھی شمار ہوگا۔
آج کے نام نہاد توحید پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح روایات پیش کی جاتی ہیں کہ جنکے مفھوم کہ مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے جمہور یا پھر من حیث المجموع ،امت پر شرک جلی کا کوئی خطرہ نہ تھا تو یہ نام نہاد توحید پرست آج کہ دور کے مومنین کی اکثریت کو مشرک ثابت کرنے کے لیے پھر سورہ یوسف کی زیر بحث آیت سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان لکیر کے فقیروں کے فہم کے مطابق ایک تو اس آیت میں لفظ مومن آیا ہے اور دوسرا کثیر لہذا ثابت ہوا کہ آج کہ دور کے جو اکثر مومن ہیں وہ لازما مشرک بھی ٹھرے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کس قدر بھونڈا استدلال ہے یہ ، اور یہی چیز ہم نے اوپر بھی واضح کی کہ آیت میں اگرچہ لفظ مومن آیا ہے مگر وہ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ صوری اور عرفی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور آیت کا شان نزول میں مفسرین نے تینون طبقات کا یعنی مشرکین مکہ ،منافقین مدینہ اور اہل کتاب یہود و نصارٰی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے بحرحال مزکورہ بالا تینوں طبقات میں کسی ایک کو یا پھر تینوں کومشترکہ طور پر بھی اگر اس آیت کے شان نزول کا مصداق مان لیا جائے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ آیت بحرحال اس وقت کے حقیقی مومنین کے حق میں ہرگز نازل نہیں ہوئی اور اسی چیز کو ہم نے اوپر واضح کیا ۔
اعتراض:جو لوگ ایمان لا کر اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کرتے ان کے لئے امن اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (سورہ الانعام ٨٢) جب یہ ایت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پریشان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہے ہوگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے نیک بندے(لقمان رضی اللہ عنہ) کا قول نہیں سنا کہ اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم عظیم ہے(بخاری کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم رقم ٣٢، ٤٧٧٦)
جواب: سورہ انعام کی اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ایک مسلمان مسلم ہوتے ہوئے بھی شرک کی آمیزش سے خود کو آلود کرسکتا ہے اور ایسا کرچکنے کہ بعد بھی وہ مسلم ہی کہلواتا ہے درست نہیں کیونکہ جب آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام گھبرا گئے اور انھوں نے لفظ ظلم کا حقیقی و معروف معنی مراد لیا جو کہ کمی و ذیادتی پر دلالت کرتا ہے چناچہ انھوں نے گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ ہم میں سے کون ہوگا کہ جس سے کبھی نہ کبھی کسی دوسرے کہ حق میں کوئی کمی و بیشی نہ ہوئی ہوگی ؟؟؟ تو کیا ہمارے تمام اعمال ضائع گئے ؟؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیہ کہ حقیقی معنی ان پر واضح کرنے کے لیے سورہ لقمان کی آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد معروف معنوں والا ظلم نہیں بلکہ شرک ہے آیت کی یہ تفسیر سن کر صحابہ کرام کے بے قرار دلوں کو چین میسر ہوا ۔۔۔ اس آیت میں صحابہ کرام کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ مژدہ جانفزا تھا کہ ظلم تو حقیقی طور پر ان لوگوں کا ہے کہ جو شرک کرتے ہیں جبکہ تم لوگ تو شرک سے تائب ہوکر پکے سچے مومن ہو ۔۔
اعتراض :فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمان جب تک شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی حدیث پیش ہے
“" قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کے چند قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور بتوں کی عبادت نہ کر لیں (ابوداود کتاب الفتن باب ذکرہ الفتن رقم ٤٢٥٢)
جواب :آپکی پیش کردہ اس روایت کی وضاحت میں مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب انے مضمون عقیدہ توحید اور امت توحید میں رقمطراز ہیں کہ ۔۔
امت مسلمہ کی یہ ایمانی عظمت اب بھی برقرار ہے عقیدہ توحید باقی ہے۔ لیکن چمک میں فرق آنے لگا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حقیقت خود بیان فرمائی ۔
(۱) ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں خدا کی قسم تمہارے بارے میں خطرہ محسوس نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم کہیں دنیا کی محبت میں ڈوب نہ جائو۔
(بخاری شریف حدیث نمبر۱۳۴۴،مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۹۶)
(۲) حضرت عبادہ بن نُسَیّ کہتے ہیں میں حضرت شداد بن اوس کے پاس ان کی جائے نماز میں داخل ہوا تو وہ رو رہے تھے میں نے پوچھا اے ابو عبدالرحمن رونے کی وجہ کیا ہے؟ تو حضرت شداد نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ایک حدیث سنی تھی اس کی وجہ سے رو رہا ہوں۔ میں نے کہا وہ کونسی حدیث ہے انہوں نے کہا اس دوران کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ایسی کیفیت ملاحظہ کی جس سے میں غمگین ہوا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر قربان ہو جائیں آپ کے چہرہ مبارک پر میں کیسی کیفیت دیکھ رہا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک امر کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں جس کا مجھے میرے بعد اپنی امت پرخطرہ ہے۔ میں نے کہا وہ کونسا امر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرک اور شھوت خفیہ ہے حضرت شداد کہتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار میری امت کے لوگ نہ سورج کی عبادت کریں گے نہ چاند کی نہ کسی بت کی عبادت کریں گے اور نہ ہی کسی پتھر کی لیکن اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کیلئے ریاکاری کریں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ریا شرک ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ریا شرک ہے میں نے کہا شہوت خفیہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے صبح کے وقت روزے کی حالت میں ہوگا اسے دنیا کی شھوتوں میں سے کوئی شھوت عارض ہو جائے گی تو وہ روزہ توڑ دے گا۔
(مستدرک للحاکم جلد نمبر۵ ،ص۴۷۰، کتاب الرقاق، باب الشھوۃ الخفیہ ،حدیث نمبر۸۰۱۰ ،مطبوعہ دارالمعرفۃ ،
مسند امام احمد جلد نمبر۵، ص۸۳۵ حدیث نمبر۱۷۲۵۰ ،مطبوعہ عالم الکتب ،
ابن ماجہ کتاب الزھد باب الریا والسمعہ، حدیث نمبر۴۲۰۵ ،
بیہقی شعب ایمان ،باب فی اخلاص العمل و ترک الریا ،جلد نمبر۵، ص۳۳۳ ، حدیث نمبر۶۸۳۰ ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،
حلیہ الاولیا، جلد نمبر۱،ص۲۴۷،مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی )
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
(۳) حضرت عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں میں۔ حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضرت شداد بن اوس اورحضرت عوف بن مالک تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگو میں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی وجہ سے مجھے تجھ پر شھوت خفیہ اور شرک کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔
حضرت عبادہ اور حضرت ابو درداء نے کہا اے اللہ معاف کرے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ ارشاد نہیں فرمایا: شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ جہاں تک شھوت خفیہ کا تعلق ہے۔ اسے ہم جانتے ہیں وہ دنیا اور عورتوں کی خواہش ہے۔ اے شداد جس شرک سے آپ ہمیں ڈرار ہے ہیں یہ شرک کیا ہے۔
حضرت شداد نے کہا تم خود ہی مجھے بتا ئو جس نے کسی بندے کیلئے دکھلاوا کرتے ہوئے نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا صدقہ کیا۔ کیا اس نے شرک کیا؟ حضرت عبادہ اور حضرت ابو دردا نے کہا ہاں حضرت شداد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جس نے ریاکاری کرتے ہوئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے ریا کرتے ہوئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کرتے ہوئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔(سیر اعلام النبلاء للذھبی جلد نمبر۴،ص۹۵،مطبوعہ دارالفکر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز میں شرک کی جڑیں کاٹیں کہ ہمیشہ کیلئے اسے ختم کردیا چنانچہ شیطان کو یہ مایوسی صرف جزیرہ عرب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لحاظ سے ہوئی ملاحظہ ہو۔
(۴) حضرت جابر سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اسکی بندگی کریں۔
( البدایہ ، ابن کثیر جلد نمبر1،ص۶۶،مطبوعہ دارالمعرفۃ)
اس مضمون کی موید اور بھی متعدد احادیث ہیں۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے اس امت کا کلمہ توحید پر یقین اتنا دیرپا ہے کہ جب نماز روزہ کا نام بھی باقی نہیں رہے گا یہ کلمہ اس وقت بھی ہوگا اور اس وقت بھی معتبر ہوگا، چنانچہ اس امت میں پہلے عمل میں کمزوری واقع ہوگی عقیدہ توحید بعد میں باقی رہے گا۔امت جس مرحلہ سے گذر رہی ہے یہ امت کے شرک جلی (بت پرستی) میں مبتلا ہونے کا مرحلہ نہیں بلکہ شرک خفی ریا کاری اور دنیا میں رغبت کا مرحلہ ہے۔
ایک حدیث شریف میں جو کچھ قبائل کے مشرک ہو جانے کا ذکر ہے وہ بعد کامعاملہ ہے۔دیکھیے
(۵) حضرت حذیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
اسلام یوں بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑے کے نقش و نگار مدھم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ نہیں جانا جائے گا روزہ کیا ہے صدقہ کیا ہے اور قربانی کیا ہے؟ ایک ہی رات میں کتاب اللہ غائب ہو جائے گی زمین پر اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی لوگوں کے کچھ طبقے باقی رہ جائیں گے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کہیں گے ہم نے اپنے آباء کو اس کلمہ لا الہ الا اللہ پر پایا تھا ہم بھی وہی کہ رہے ہیں۔
حضرت صلہ بن زفر نے حضرت حذیفہ سے کہا جب انہیں نماز روزہ صدقہ اور قربانی کا پتہ نہیں ہوگا تو لا الہ الا اللہ انہیں کیا فائدہ دے گا؟ حضرت حذیفہ نے ان سے اعراض کیا صلہ نے تین مرتبہ آپ سے پوچھا آپ اعراض کرتے رہے تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت صلہ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایا اے صلہ یہ کلمہ ان کو نارجھنم سے نجات دے گا۔تین مرتبہ یہ کہا۔(مستدرک للحا کم جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۶۶۶ حدیث نمبر ۸۵۰۸،
سنن ابن ماجہ ، باب ذھا ب القرآن والعلم حد یث نمبر ۴۰۴۹،
کتا ب النہایہ فی الفتن لا بن کثیر جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۰)
امام حاکم نے کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے
اس حدیث شریف میں جن حا لات کا ذکر کیا گیا ہے ابھی وہ حالات یقینا نہیں آئے ، ابھی تو نما زیو ں سے مسجد یں بھر ی ہو ئی ہیں روزے دار روزہ رکھتے ہیں آج کے حا لات کے مقابلے میں وہ حالات کتنے برے ہو نگے جب نماز روزے کا نا م بھی بھول جائے گا مگر کلمہ اسلام پھر بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ اس وقت کے کمزور ترین مومن کا بھی کلمہ معتبر ہوگا ،چنانچہ آج کے مسلما نوں پر تھوک کے لحا ظ سے فتوی شرک کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ جن کے کلمہ کو غیر معتبر قراردے دیا جائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرک جلی کا امکان نہیں امکا ن توخدائی کے جھوٹے دعوے کا بھی ہے (معاذاللہ) جب کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خود اللہ ہوں (معا ذاللہ) اس کا رب ذوالجلا ل کے علاوہ کسی اور کو معبود مان کر شرک کرنے کا امکا ن موجود ہے لیکن امت میں ہر طرف پھیل جا نے والا شرک وہ شرک خفی ہے ۔ ریا کا ری ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس امت نے خاتم النبین حضر ت محمد مصطفےَصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرادینے کا حق ادا کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی کی جھوٹی نبوت کو برداشت نہیں کر سکی اور اس معنی میں شرک فی الرسالت کا مقابلہ کیا ہے وہ امت سید المر سلین حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث کرنے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں شرک کو کیسے برداشت کر سکتی ہے جن کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ان کے نزدیک ازلی ابدی حی قیوم اللہ کے ہوتے ہوئے کو ئی اور اللہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
ویسے بھی جب تک قرآن موجو دہے شرک جلی کے امت میں پنپنے کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔ پہلی امتو ں میں جو بد عملی تھی اس کا اس امت میں آجا نا معاذاللہ ایک اور امر ہے مگر پہلی امتو ں میں جیسے شرک تھا ویسے اس امت میں آنا یہ ہر گزنہیں ہے ان امتوں کی کتابیں محرف ہو گئیں مگر اس امت کا قرآن آج بھی تحریف سے پا ک ہے۔ان امتو ں میں ایسا بگاڑجو آیا تو اصلاح کیلئے نبوت کا دروازہ کھلا تھا ۔ مگر یہ امت آخری امت ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ چنا نچہ پہلی امتو ں جیسی شر ک کی بیما ری اس امت کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اگر تھوک کے لحا ظ سے اس امت میں شرک آجانا ہوتا تو نبوت کا دروازہ بند نہ کیا جاتا بلکہ کچھ لوگو ں کے بقو ل ـــ’’آج مشرکین مکہ کے شرک سے بڑا شر ک مسلما نو ںمیں پایا گیا ہے‘‘تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھو ٹے مشرکین کے خلاف جہاد کیلئے نہ بھیجاجاتا بلکہ بڑے مشرکین کے زما نے میں معبوث کیا جا تا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو نہا یت گھمبیر شرک کے زمانے میں مبعوث کیا گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی جڑیں ہمیشہ کیلئے کا ٹ دیں اور اپنی امت کی ریا کاری ،دنیا کی رغبت اور شہوت خفیہ کو شدید فتنہ قرار دیا امت کو شرکیہ امور سے ڈرانا ضرور چاہیے تا کہ کہیں جزوی طور پر بھی امکا نی صورت واقع میں نہ پائی جاسکے مگر توسل ،تبرک کا عقیدہ رکھنے والوں پر اور مزارات اولیاء پر حا ضری دینے والوں پر شرک کا فتوی بہت بڑا ظلم بھی ہے اور ملت میں انتشار کا باعث بھی ہے
مزارات مقدسہ پر چادریں چڑھانا اور ان کو چومنا شرک نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل قرآن وحدیث سے بہت دور کچھ لوگ قرآن وحدیث کے نام پر غلط استدلال کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس پر ایک جامع جواب درج ذیل ہے۔
بَابُ الصَّلٰوةِ عَلَی الشَّهِيْدِ
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ يَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی اَهْلِ اُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَی الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی الْاٰنَ وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَاءِنِ الْاَرْضِ اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِيْ وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور احد میں شہید ہوجانے والوں پر نماز پڑھی جیسا کہ آپ میت پر نماز پڑھتے تھے پھر آپ منبر شریف کی طرف واپس تشریف لائے (اور منبر پر جلوہ افروز ہوکر) فرمایا میں تمہارے لئے (فرط) مقدم ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اب دیکھ رہا ہوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئی ہیں یا فرمایا زمین کی کنجیاں اور بے شک میں اللہ کی قسم تم پر شرک کرنے کا خوف نہیں رکھتا لیکن مجھے تم پر یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگ جاؤ گے‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 451، الرقم، دار اابن کثیر الیمامۃ بیروت
زیارتِ مزاراتِ اولیاء و شہداء اور عرس
حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال سے ایک سال قبل ہمیں ساتھ لیا اور احد کے شہداء کے مزارات پر گئے۔ شارحین حدیث نے علی التحقیق لکھا ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال والے سال کا واقعہ ہے، چونکہ یہ حدیث آگے بھی بخاری میں روایت کی گئی ہے جس میں صحابی کہتے ہیں کہ منبر پر خطاب کرتے ہوئے یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری منظر تھا جو ہم نے دیکھا۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نماز پڑھی جیسے الوداع کرنے والا پڑھتا ہے۔ اس پر محدثین نے کہا کہ یہ آخری سال کا واقعہ ہے گویا اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے مزارات پر تشریف لائے شہدائے احد کو آٹھ سال بیت چکے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کو ساتھ لیا اور ایک پورا اجتماع شہدائے احد کی زیارت کے لئے گیا۔
لہٰذا اجتماعی طور پر مزارات کی زیارت کو جانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
آپ کے ساتھ سینکڑوں صحابہ تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب کیا۔
گویا سینکڑوں صحابہ کا اجتماع ہوا تو پھر مزار ولی اور مزار شہید پر سینکڑوں کا اجتماع اور زیارت کرنا یہ بھی سنت ہے اور اسی کو عرس کہتے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کا عرس منایا تھا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے عرس کہاں سے ثابت ہے ؟ حدیث کا اگلا حصہ اس امر کو واضح کررہا ہے کہ جب آپ نے وہاں نماز پڑھ لی یا دعا فرما لی (شارحین حدیث کے ہاں دونوں معنیٰ آئے ہیں)
ثُمَّ انْصَرَفَ اِليَ الْمِنْبَر
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر پر قیام فرماکر خطاب کیا‘‘۔
چونکہ منبر پر کھڑے ہوکر خطاب کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی تعداد کثیر تھی کیونکہ اگر تعداد کم ہوتی تو منبر پر قیام فرما کر خطاب کی ضرورت و حاجت نہ تھی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھی اور ان تمام کو ساتھ لے کر مزارات شہدائے احد پر آئے۔ شہدائے احد کی قبور میں منبر کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ منبر ساتھ لے کر گئے تھے یا منگوایا گیا تھا۔ گویا جاتے ہوئے یہ ارادہ تھا کہ صرف زیارت ہی نہیں ہوگی بلکہ خطاب بھی ہوگا۔
معلوم ہوا جب مزار کی زیارت ہو، سینکڑوں کا اجتماع ہو، منبر لگے اور منبر پر خطاب ہو یہ تمام اجزاء مل جائیں تو اسی کو عرس کا نام دیا جاتا ہے۔
لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے قبل آداب سکھادیئے کہ شہداء، اولیاء، صالحین کے مزار پر جانا، ان کی اجتماعی زیارت کرنا، خطاب کرنا، ذکر و تذکیر اور وعظ و نصیحت کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اس موقع پر خطاب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضائل اور مناقب بیان کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکام و شریعت میں سے کوئی مسئلہ بیان نہیں کیا بلکہ خطاب شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر تھا۔ فرمایا : لوگو! میں تم سے پہلے جارہا ہوں تاکہ آگے تمہاری بخشش کا انتظام کروں، میں وہاں تمہارا استقبال کروں گا۔
اِنِّيْ فَرَطٌ لَکُمْ وَفِيْ رَوايَة قَالَ حَيَاتِيْ خَيْرُلَّکُمْ وَمَمَاتِيْ خَيْرٌلَّکُمْ.
’’میں تمہاری خاطر آگے جانے والا ہوں اور ایک روایت میں ہے۔ میری زندگی بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میرا وصال (بھی ) تمہارے لیے بہتر ہے‘‘
یعنی میں تم میں تھا تب بھی تمہیں فیض دیتا رہا، اب آگے جارہا ہوں، وفات بھی تمہارے لئے باعث فیض ہوگی، تمہیں بخشوانے کا سامان کرنے جارہا ہوں۔
ربط بین الالفاظ کے ذریعے حدیث کو پڑھیں۔ پہلا جز یہ تھا کہ اِنِّيْ فَرَطٌ لَّکُمْ اس میں اپنے وصال اور آخرت میں صحابہ و امت کی شفاعت کا اشارہ موجود ہے کہ تمہاری شفاعت کا بندوبست کرنے جارہا ہوں۔ اس کے بعد فرمایا وَاَنَا شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اور یہ نہ سمجھنا کہ میں رخصت ہوگیا، نہیں میں پھر بھی تمہیں دیکھتا رہوں گا۔ تمہارے اوپر گواہ اور نگہبان رہوں گا۔ فَرَطٌ لَّکُمْ اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ کے درمیان ایک معنوی ربط ہے۔ فَرَطٌ لَّکُمْ وصال کی خبر دے رہا ہے اور شَهِيْدٌ عَلَيْکُمْ اشارہ دے رہا ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ اب میں نہیں رہا بلکہ میں تم پر نگہبان رہوں گا، تمہارے اعمال اور درود و سلام مجھ پر پیش ہوتے رہیں گے میں تمہارے اعمال نیک و بد سے خوش و غمزدہ ہوتا رہوں گا اور ہر لمحہ تم سے باخبر رہوں گا۔ پھر فرمایا : وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی اَلْاٰن. اس تیسرے جملے میں خوشخبری دی کہ ایک حوض، حوض کوثر ہے اور میں اس وقت اس حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ حوض، جنت میں ہے مگر اس کا ظہور قیامت کے دن ہوگا اور یہ حقائق غیبیہ میں سے ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی سرزمین پر کھڑے ہوکر اسی لمحے اس حوض کوثر کا مشاہدہ بھی فرمارہے ہیں جو جنت میں ہے یا جو قیامت کے دن ظاہر ہونے والا ہے۔ گویا وہاں کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت بھی دیکھ رہے ہیں اور جس دن قیامت برپا ہوگی اس دن کا منظر بھی دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا :
وَاِنِّيْ اُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِن الْاَرْض اَوْ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ.
’’اور زمین کے سب خزانوں کی ساری چابیاں مجھے عطا کردی گئی ہیں‘‘۔
’’مَفَاتِيْح‘‘ جمع منتہی الجموع ہے اور ’’خزائن‘‘ بھی جمع ہے۔ ’’مفاتیح‘‘ اور ’’خزائن‘‘ آپس میں مضاف اور مضاف الیہ ہیں، جب مضاف و مضاف الیہ دونوں جمع ہوں نیز مضاف جمع منتہی الجموع ہو یعنی جمع کی اضافت جمع پر ہو تو یہ استغراق کلی کا فائدہ دیتا ہے، کلیت پر دلالت کرتا ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتا رہے ہیں کہ جتنی قِسموں کے خزانے ہیں اور ان کی جتنی چابیاں ہیں، رب نے مجھے عطا کردی ہیں۔ گویا خزانوں کے مالک بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور چابیوں کے مالک بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ.
’’اور غیب کی کنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اس کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں‘‘۔
الانعام، 6 : 59
غیروں کے لئے تالا ہوتا ہے اور اپنوں کے لئے چابیاں ہوتی ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی امت کے لئے اشارہ فرمادیا کہ زمین کے کل خزانوں کی کل چابیاں مجھے دی ہیں۔ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ ’’تم میرے قدموں سے جڑ جاؤ، جس کو طلب ہوگی، صدق کا تعلق ہوگا اس کو خزانوں سے بھردوں گا‘‘۔
مَفَاتِيْحَ الْاَرْض میں مستقبل میں فتوحات اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے نیز اس سے عرب کی سرزمین سے نکلنے والے تیل کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یہ بات بغیر دلیل کے نہیں ہے، امام حجر عسقلانی بھی اس بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں سرزمین عرب کے تیل و معدنیات کی طرف اشارہ ہے۔ تو پھر جو کچھ زمین سے نکلا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال قبل بیان فرما دیا اور اب جس جس وقت میں جو کچھ بھی ظاہر ہوگا اور جو جو اس سے بہرہ مند ہو گا اور نفع اٹھائے گا وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہو گا۔ مانے یا نہ مانے یہ الگ بات ہے مگر ہر کوئی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا صدقہ ہی کھائے گا۔
سوادِ اعظم پر شرک کے فتوے لگانے والوں کیلئے مقام غور !
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہدائے احد کی زیارت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے آخری حصے میں فرمایا :
وَاِنِّيْ وَاللّٰهِ مَا اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی.
’’خدا کی قسم! مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرو گے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو مشرک قرار دینے والے غور کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شرک کا اتہام تہمت لگانے والوں کیلئے مقام غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھائی کہ مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے۔
وَلٰکِنْ اَخَافُ عَلَيْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا.
’’بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تم دنیا طلبی اور دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا کہ دنیا کی وجہ سے ہلاکت میں چلے جاؤ گے‘‘۔
یہاں ایک جزئیہ سمجھنے والا ہے۔ بعض احباب یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرک کے خوف کا نہ ہونا یہ صرف صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرک سے مستثنیٰ اور مبراء تھے۔ اور ہمیں مبراء نہیں کیا کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سوال کو اگر قبول کر لیا جائے تو اب اس کا جواب یہ ہے۔ ’’ولکن‘‘ (لیکن) کے آنے کی وجہ سے جملے کے دونوں اجزاء ایک ہی جملہ ہوں گے۔ مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ یہ خوف ہے کہ تم دنیا پرستی کرو گے۔ اس جملے کو صرف صحابہ کے دور تک محدود کرنے والے غور کریں کہ اگر صحابہ کے ساتھ شرک کے خوف کا نہ ہونا خاص کرنا ہے تو صرف شرک کے خوف کا نہ ہونا ہی صحابہ کے ساتھ خاص نہ ہوگا بلکہ پھر دنیا پرستی کا الزام بھی ان کے ساتھ خاص ہوگا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو باتیں کہیں۔
عدم شرک
دنیا پرستی
اب یہاں دو امکان ہیں کہ یہ بات یا تو جمیع امت کے لئے فرمائی ہے یا صرف صحابہ کرام کے لئے ہے۔ اگر جمیع امت کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء ہیں، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ اور اگر صرف صحابہ کے لئے ہے تب بھی دونوں جزء، کامل جملہ منسوب کیا جائے گا۔ کیونکہ ’’ولکن‘‘ ’’لیکن‘‘ کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ پس حدیث مبارکہ میں موجود شرک کے خوف کا نہ ہونا صرف صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع امت کے لئے ہے۔ پس معنی یہ ہوگا کہ اے میری امت مجھے تمہارے بارے شرک کا خوف تو نہیں مگر یہ خوف ہے کہ دنیا کی اغراض میں پھنس جاؤ گے۔ میں نے شرک کو جڑوں سے کاٹ کر اتنا ختم کردیا ہے کہ قیامت کے دن تک میری امت من حیث المجموع اب مشرک کبھی نہیں بنے گی۔ اور اگر خطرہ ہے تو صرف یہ کہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوگی۔ آج ہم دنیا پرستی میں مبتلا ہیں۔ تو پھر جزء اول بھی حق ہوا اور جزء ثانی بھی حق ہوا۔ جب جزء ثانی امت کے بارے میں حق ہے کہ واقعتاً امت دنیا پرستی میں مبتلا ہے تو جزء اول بھی حق ہے کہ امت شرک میں مبتلا نہ ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جزء لے لیا جائے اور ایک جزء چھوڑ دیا جائے۔
آج امت دنیا پرستی کا شکار ہے اور اسی کے باعث ذلت و رسوائی کا عذاب بھگت رہی ہے مگر بطور مجموعی امت مشرک نہیں ہوگی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضمانت دے دی۔ لہٰذا اب امت کے سواد اعظم کو مشرک کہنا یا ان کے عقیدہ کو شرک تصور کرنا یہ سواد اعظم پر اعتراض نہیں بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کو معاذ اللہ رد کرنا ہے۔
آپ لوگوں کو مبارک ہوکہ شرک کی تہمت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سب سے دفع فرمادیا۔ لہٰذا امت کو مشرک قرار دینے سے احتیاط کرنی چاہئے۔
اہل ایمان کے مزارات پر پھول چڑھانا اور چراغاں کرنا
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہے :
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًاo
’’کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بے شک وہ بڑا بردبار بڑا بخشنے والا ہے‘‘۔
بنی اسرائیل 17 : 44
معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اپنی زبان اور حال کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی پاکی بولتی ہے ہاں مگر ہر چیز کی تسبیح کو ہر ایک نہیں سمجھتا۔ اہل ایمان کی قبروں پر جو سبزہ گھاس وغیرہ ہے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتا ہے اور اس کا ثواب قبر والے کو پہنچتا ہے نیک ہے تو اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں گناہگار ہے تو اس کی مغفرت ہوتی ہے اور عذاب میں تخفیف کا باعث ہے۔ قبروں اور مزارات پر لوگ پھول چڑھاتے ہیں اس کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ سبزہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر و تہلیل کرے گا اور اہل قبور کو اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک ہرا ہے۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِیرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.
’’حضرت ابن عباس ضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ فرمایا کہ ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ ایک پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے جب تک یہ سوکھ نہ جائیں‘‘۔
بخاری، الصحیح، 1 : 458، رقم : 1295
شرح حدیث
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
أن المعنی فيه أنه يسبح مادام رطبا فيحصل التخفيف ببرکة التسبيح وعلی هذا فيطرد في کل ما فيه رطوبة من الأشجار وغيرها وکذلک فيما فيه برکة کالذکر وتلاوة القرآن من باب الأولی.
’’مطلب یہ کہ جب تک ٹہنیاں (پھول، پتیاں، گھاس) سر سبز رہیں گی، ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی بنابریں درخت وغیرہ جس جس چیز میں تری ہے (گھاس، پھول وغیرہ) یونہی بابرکت چیز جیسے ذکر، تلاوت قرآن کریم، بطریق اولیٰ باعث برکت و تخفیف ہیں، وھو اولی ان ینتفع من غیرہ اس حدیث پاک کا زیادہ حق ہے کہ بجائے کسی اور کے اس کی پیروی کی جائے‘‘۔
عسقلانی، فتح الباری، 1 : 320، دار المعرفۃ بیروت
دیو بندی عالم شیخ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :
في ((الدر المختار)) اِنَّ اِنباتَ الشجرةِ مُسْتَحبٌّ ۔ ۔ ۔ وفي ((العالمگیریۃ)) أنَّ اِلقاءَ الرياحين أيضًا مُفِيْد.
’’در مختار میں ہے قبر پر درخت لگانا مستحب ہے۔۔۔ اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی ہے‘‘۔
انور شاہ کشمیری، فیض الباری شرح صحیح بخاری، 3 : 72، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان
دیوبندی عالم شیخ رشید احمد گنگوھی کا مؤقف درج زیل ہے :
ابن عابدین (شامی) نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے خشک جائز ہے جیسا کہ البحر و الدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سر سبز رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگا اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سبز ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور جن دو قبروں کو عذاب ہو رہا تھا ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ خشک نہ ہونگی ان کی تسبیح کی برکت سے ان کے عذاب میں کمی رہے گی کیونکہ خشک کی تسبیح سے زیادہ کامل سرسبز کی تسبیح ہوتی ہے کہ ہری ٹہنی کی ایک خاص قسم کی زندگی ہے۔ اس ارشاد پاک کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سر سبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔
رشيد أحمد گنگوهی، لامع الدراری علی جامع البخاری، 4 : 380، المکتبة الإمدادية، باب العمرة. مکة المکرمة
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور امام طحاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں فرمایا ہے :
أفتی بعض الأئمة من متأخري أصحابنا بأن ما اعتيد من وضع الريحان والجريد سنة لهذا الحديث.
’’ہمارے متاخرین ائمہ احناف نے فتوی دیا کہ قبروں پر جو پھول اور ٹہنیاں رکھنے کا دستور ہے اس حدیث پاک کی رو سے سنت ہے‘‘.
1۔ ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 2 : 53، دار الکتب العلمیۃ لبنان۔ بیروت
2۔ طحاوی، حاشیۃ علی مراقي الفلاح، 1 : 415، المطبۃ الکبری الامیریۃ ببولاق مصر
امام طحاوی مذکورہ عبارت کے ساتھ مزید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وإذا کان يرجی التخفيف عن الميت بتسبيح الجريدة فتلاوة القرآن أعظم برکة.
’’اورجب ٹہنیوں کی تسبیح کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف کی امید ہے تو تلاوت قرآن کی برکت تو اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے‘‘۔
ایضاً
امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں :
وذهب المحققون من المفسرين وغير هم إلی أنه علی عمومه... استحب العلماء قرأة القرآن عند القبر لهذا الحديث لأنه إذا کان يرجی التخفيف يتسبيح الجريد فبتلاوة القرآن أولی.
’’محققین، مفسرین اور دیگر ائمہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث پاک عام ہے۔ ۔ ۔ علماء نے اس حدیث پاک کی روشنی میں قبر کے پاس تلاوت قرآن کو مستحب کہا ہے اس لیے کہ جب ٹہنی کی تسبیح سے تخفیف کی امید ہوسکتی ہے تو تلاوت قرآن سے بطریق اولیٰ امید کی جا سکتی ہے‘‘۔
نووی، شرح صحیح مسلم، 3 : 202، دار اِحیاء التراث العربي بیروت
فقہائے کرام
وضع الورود و الرياحين علی القبور حسن وإن تصدق بقيمة الورد کان أحسن.
گلاب کے یا دوسرے پھول قبروں پر رکھنا اچھا ہے اور ان پھولوں کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ اچھا ہے‘‘۔
الشیخ نظام وجماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ، 5 : 351، دار الفکر
یہ حقیقت تو بے غبار ہوگئی اور حق بات روشن ہوگئی کہ مسلمانوں کی قبروں پر پھول رکھنا، پتے، ٹہنیاں اور گھاس اگانا، رکھنا مسنون ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور اس کی جو وجہ بتائی کہ صاحب قبر کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور یہ عمل عام ہے قیامت تک اس کو نسخ نہیں کیا جا سکتا، کوئی کلمہ گو اس کا انکار نہیں کر سکتا اور مزید کسی کی تائید کی ضرورت نہیں تاہم، ہم نے تبرعاً اکابر ائمہ اہل سنت کے اقوال پیش کر دئیے ہیں۔ اب بھی کوئی نہ سمجھے یا نہ سمجھنا چاہے تو اس کو اﷲ ہی سمجھائے۔ اہل ایمان کو اطمینان ہونا چاہیے کہ ان کا یہ عمل سنت نبوی ہے۔
زائرین حضرات کی فوری توجہ کے لیے
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انتہاء پسند ہیں اعتدال و توازن جو اسلامی احکام و تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر حرام کہدیا جو سراسر زیادتی اور احکام شرع کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف جائز و مستحسن بلکہ سنت سمجھنے والوں نے اس سنت کے ساتھ اتنی بدعات جو ڑ دیں کہ الامان و الحفیظ۔
موم بتیاں اور چراغ روشن کرنا
ان کی اصل صرف یہ ہے کہ زائرین کسی وجہ سے دن کو زیارت قبور کے لیے نہیں آ سکتے رات کو وقت ملتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں قبرستان تک پہنچنے کے لیے اور صاحب مزار تک آرام سے پہنچنے کے لیے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کے وقت موم بتی یا چراغ وغیرہ کے ذریعہ روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا تاکہ رات کو آنے جانے والوں، تدفین کرنے والوں اور زائرین کو تکلیف نہ ہو اور وہ روشنی میں بآسانی آ جا سکیں یہ چراغاں عام راستوں میں قبرستانوں اور مساجد وغیرہ میں ہوتا تھا اور آج بھی بوقت ضرورت ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے اور اس کے جواز بلکہ استحباب میں کوئی شبہ نہیں۔
علامہ امام شیخ عبد القادر الرافعی الفاروقی الحنفی تقریرات الرافعی علی حاشےۃ ابن عابدین میں لکھتے ہیں :
إن البدعة الحسنة الموافقة لمقصود الشرع تسمی سنة فبناء القباب علی قبور العلماء والأولياء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثياب علی قبورهم أمر جائز إذا کان القصد بذلک التعظيم فی أعين العامة حتی لا يحتقروا صاحب هذا القبر وکذا ايقاد القناديل والشمع عند قبور الاولياء والصلحاء من باب التعظيم والا جلال ايضاً للأولياء فالمقصد فيها مقصد حسن ونذر الزيت والشمع للأولياء يوقد عند قبورهم تعظيما لهم ومحبة فيهم جائز ايضاً لا ينبغی النهی عنه.
’’اچھی بدعت (نئی بات) جو مقصود شرع کے موافق ہو سنت کہلاتی ہے پس علماء اور اولیاء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا، ان کی قبروں پر پردے، عمامے اور کپڑے ڈالنا جائز ہے جب کہ اس سے مقصد لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت کا اظہار کرنا ہوتا کہ وہ صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں یونہی اولیاء و صلحاء کی قبر کے پاس قندیلیں اور شمعیں روشن کرنا تعظیم و اجلال کی بنا پر ہے سو اس میں ارادہ اچھا ہے۔ زیتون کے تیل اور موم بتیاں اولیاء اﷲ کی قبروں کے پاس روشن کی جاتی ہیں یہ بھی ان کی تعظیم و محبت ہے لہٰذا جائز ہے اس سے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔
عبدالقادرالرافعی، تقریرات الرافعی علی حاشیہ ابن عابدین، 2 : 123
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں :
بعض الفقهاء وضع الستور و العمائم و الثياب علی قبور الصالحين و الأولياء وقال في فتاوی الحجة و تکره الستور علی قبور.
ولکن نحن نقول الآن إذا قصد به التعظيم في عيون العامة حتی لا يحتقروا صاحب القبر ولجلب الخشوع والأدب للغافلين الزائرين فهوجائز لأن الأعمال بالنيات وإن کان بدعة.
’’بعض فقہاء نے صالحین و اولیاء کی قبروں پر غلاف اور کپڑے رکھنے کو مکروہ کہا ہے فتاویٰ الحجۃ میں کہاقبروں پر غلاف چڑھانا مکروہ ہے۔
لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظروں میں تعظیم و تکریم مقصود ہے تاکہ وہ قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور تاکہ عاجزی و انکساری پیدا ہو اور غافل زائرین میں ادب پیدا ہو تو یہ امور جائز ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگرچہ نئی چیز ہے‘‘۔
ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر بیروت
خلاصۂ کلام
مسلمان کی قبر پر پھول چڑھانا بھی مسنون ہے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کو چراغ جلانا یا روشنی کرنا بھی کار خیر ہے اس سے لوگوں کو آرام اور صاحب قبر کی عزت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے یونہی غلاف چڑھانا بھی مزارات و صاحبان مزارات کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرنا ہے مگر آج کل بعض مزارات و مقابر پر جو جہالت، فضول خرچی، گمراہی اور ماحول کی پرا گندگی و تعفن پیدا کیا جاتا ہے وہ سراسر فضول، اسراف اور جہالت و گمراہی ہے۔
چراغاں
آپ موم بتی یا تیل کا چراغ اس نیت سے رکھیں کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں روشنی کا اہتمام کر کے عام ضرورت پوری کی جائے، اچھا ہے، اس کے ساتھ ایمرجنسی لائیٹ کا متبادل بھی آ گیا ہے۔ چراغوں اور موم بتیوں کی جگہ اسے استعمال کریں ان سے نہ دھواں، نہ گندگی اور نہ ہی بدبو پیدا ہوتی ہے آج کل مختلف مزارات پر حد سے زیادہ ہونے والا چراغاں جہالت، حماقت اور فضول خرچی ہے بجلی کی ٹیوبوں اور قمقموں کی دلفریب حسین روشنی کے ہوتے ہوئے بھی حد سے زیادہ چراغ جلانا، موم بتیاں روشن کرنا اور ان موم بتیوں کو آگ کے الاؤ میں ڈالنا، پگھلانا اور جلانا فضا کو زہر آلود کرتا ہے پورا ماحول گندا اور بدبودار ہوتا ہے لطافت و نظافت پسند شریف آدمی کو سانس لینا اور قدم رکھنا دشوار ہے ان پڑھ اور پڑھے لکھے جہلا خراج عقیدت پیش کر کے دین کی خدمت اور بزرگوں کی نیک نامی کو چار چاند لگا رہے ہیں یہ سب ولایت و تصوف کے نام پر ہو رہا ہے علماء و مشائخ دیکھ رہے ہیں سیاستدان اور حکمران دیکھ رہے ہیں صحافی اور دانشور تماشا دیکھ رہے ہیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بلا ضرورت یہ موم بتیوں کا الاؤ اور چراغوں کا جلانا کونسی نیکی ہے؟ یہ سب قومی دولت کا ضیاع ہے شیطانی فضول خرچی ہے روحانی اور ستھرے ماحول کو زہریلے دھوؤں سے زہر آلود کرنا ہے پاؤں رکھو تو تیل اور موم، نہ بیٹھنا ممکن نہ چلنا، نہ سانس لینا، گرمی، بدبو، دھوئیں کی گندگی اور وہ بھی کہاں؟ داتا گنج بخش رحمۃاﷲ علیہ کے مزار اور مسجد میں، مادھولال حسین کے مزار اور مسجد میں یہاں سے زائرین تربیت لے کر اپنے علاقوں میں گندگی پھیلاتے ہیں۔
اے مسلمان بھائیو ! ان بیہودگیوں سے توبہ کرو مزارات و مساجد کی عزت و عظمت کو پامال نہ کرو فضول خرچیوں اور بد تمیزیوں سے شیطان کے بھائی نہ بنو ان مقدس مقامات کی بے حرمتی نہ کرو اولیاء اﷲ کے آستانوں کو گندگی کے ڈھیروں میں مت بدلو! دنیا کی نظروں میں اسلام اور تصوف کو بدنام نہ کرو۔ آج دنیا کی کوئی قوم کسی سے دور نہیں رہی دنیا ہماری ان حماقتوں کو دیکھ رہی ہے۔
بند کرو ! آگ کے یہ الاؤ نہ بدنام کرو ان اچھے ناموں اور خوبصورت آستانوں کو۔ ۔ صاف کردو اﷲ کے گھروں کو، رکوع، سجود اور اعتکاف کرنے والوں کے لیے۔ ۔ بحال کردو ان کی عظمت رفتہ کو۔ ۔ منالو ! اپنے روٹھے خدا کو۔ ۔ خوش کردو اپنے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔ ۔ اپنی طرف مبذول کرلو تو جہات اولیاء کو۔
ختم کردو ! ان آستانوں سے جوا، نشہ، بے پردگی، بے ہودگی، بدمعاشی کو۔ ۔ مٹادو گندے دھوئیں، بدبو اور جملہ آلودگی کو۔ ۔ تاکہ تاریک دلوں کو جلا ملے، اندھی آنکھوں کو شرم و حیاء ملے، بیماردلوں کو دوا ملے، پورا ماحول رنگ و نور کے ماحول میں ڈوب جائے۔ ۔ بیقرار دلوں کو سکون اور پراگندہ طبیعتوں کو اطمینان و یقین کی دولت میسر ہو۔
بزرگوں کے ہاتھ اور ان کے مزارات کا بوسہ
عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَاءَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، پھر اسے بوسہ دیا، پھر فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے(اس حیثیت سے ) نہ نقصان دہ نہ فائدہ مند۔ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا نہ ہوتا، تجھے (کبھی) نہ چومتا‘‘۔
بخاری، الصحیح، 2 : 579، رقم : 1520
علامہ عینی نے امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے :
أما تقبيل الأماکن الشريفة علی قصد التبرک وکذلک تقبيل أيدي الصالحين وأرجلهم فهو حسن محمود باعتبار القصد والنيه وقد سأل أبو هريرة الحسن رضی اﷲ تعالی عنه أن يکشف له المکان الذي قبله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهو سرته فقبله تبرکا بآثاره وذريته صلی الله عليه وآله وسلم وقد کان ثابت البناني لايدع يد أنس رضی اﷲ تعالی عنه حتی يقبلها ويقول يد مست يد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. . . أن الامام أحمد سئل عن تقبيل قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم وتقبيل منبره فقال لا بأس بذلک قال فأريناه للشيخ تقی الدين بن تيمية فصار يتعجب من ذلک ويقول عجبت أحمد عندي جليل بقوله هذا کلامه أو معنی کلامه قال وأي عجب في ذلک وقد روينا عن الامام أحمد أنه غسل قميصا للشافعي وشرب الماء الذي غسله به واِذا کان هذا تعظيمه لأهل العلم فکيف بمقادير الصحابه وکيف بآثار الأنبياء عليهم الصلاة والسلام ولقد أحسن مجنون ليلی حيث يقول :
أمر علی الديار ديار ليلی
أقبل ذا الجدار وذا الجدارا
وما حب الديار شغفن قلبی
ولکن حبُّ من سکن الديارا
قال المحب الطبري يمکن أن يستنبط من تقبيل الحجر واستلام الأرکان جواز تقبيل ما في تقبيله تعظيم تعالی فانه ان لم يرد فيه خبر بالندب لم يرد بالکراهه.
’’حصول برکت کے ارادے سے مقامات مقدسہ کو چومنا، اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینا، نیت و ارادہ کے اعتبار سے اچھا اور قابل تعریف کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے امام حسن مجتبی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ وہ اپنی ناف سے کپڑا اٹھائیں جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ دیا تھا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اولاد کے آثار سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسے بوسہ دیا۔ اور (امام) ثابت بنانی جب تک بوسہ نہ دیتے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ نہ چھوڑتے اور فرمایا کرتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کو چھوا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور منبر اقدس کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ کہا کہ ہم نے یہ قول جب شیخ تقی الدین ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اس پر تعجب کرنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے۔ میرے نزدیک تو امام احمد کی یہ بات یا اس سے ملتی جلتی بات عجیب سی لگتی ہے۔ (محب طبری نے ) کہا اس میں تعجب کس بات پر ؟ ہم نے تو امام احمد کی یہ بات سنی ہے کہ آپ نے امام شافعی کی قمیض دھو کر اس کا دھون پی لیا تھا تو جب وہ اہل علم کی اتنی تعظیم کرتے تھے تو پھر آثار صحابہ رضی اﷲ عنہ آثار انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام سے کتنی عزت و عظمت سے پیش آتے ہوں گے۔ لیلیٰ کے مجنوں (قیس عامری) نے کیا خوب کہا :
جب لیلیٰ کے شہر سے گزرتا ہوں
کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس کو
مکانوں کی محبت نے میرا دل دیوانہ نہیں بنا رکھا
بلکہ ان میں بسنے والوں کی محبت نے یہ حال کر رکھا ہے
علامہ محب طبری نے فرمایا : یہ بھی ممکن ہے کہ حجر اسود اور ارکان کے بوسہ دینے سے ہر اس چیز کو چومنے کا مسئلہ نکالا جائے جس کے چومنے سے اﷲ تعالیٰ کی تعظیم ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث اس عموم استحباب پر مروی تو نہیں مگر اس کی کراہت پر بھی تو کوئی روایت نہیں‘‘۔
علامہ عینی کہتے ہیں : ’’میں نے اپنے دادا محمد بن ابو بکر کے بعض حواشی میں امام ابو عبد اﷲ محمد بن ابی الصیف کے حوالہ سے لکھا دیکھا ہے کہ کچھ آئمہ دین قرآن کو دیکھتے تو اسے بوسہ دیتے جب اجزائے حدیث کو دیکھتے تو ان کو بوسہ دیتے اور جب نیک لوگوں کی قبروں پر نظر پڑتی تو ان کو بوسہ دیتے فرمایا یہ کچھ بعید نہیں ‘‘۔
عینی، عمدۃ القاری، 9 : 241
عن داؤد بن أبي صالح قال أقبل مروان يوما فوجد رجلا واضعا وجهه علی القبر فقال أ تدري ماتصنع فأقبل عليه فاذا هو أبو أيوب فقال نعم جئت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولم آت الحجر سمعت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا تبکوا علی الدين إذا وليه أهله ولکن ابکوا عليه إذا وليه غير أهله.
’’داؤد بن ابی صالح کہتے ہیں ایک دن مروان آیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے کہا جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟ وہ شخص مروان کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ تھے۔ فرمایا ہاں میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب دین کے معاملات اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر مت روؤ۔ ہاں جب امور دین نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو اس پر روؤ ‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422، الرقم : 23633، مؤسسة قرطبة مصر
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہوگیا ہے کہ عرس منانا، مزارات پر حاضری دینا، چادر چڑھانا اورمقامات مقدسہ کو بوسہ دینا جائز ہے۔
کیا بزرگوں کی قدم بوسی سجدہ اور شرک ہے ؟
محترم قارئین : آج کل ہر جاہل اٹھتا ہے اور اہل اسلام پر شرک شرک کے فتوے لگا کر فتنہ و فساد پھیلاتا ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ شرک کسے کہتے ہیں اور کون کون سے اعمال شرک ہیں اور کون سے شرک نہیں ہیں بس انہیں ایک ہی سبق سکھایا گیا ہے کہ شرک شرک کرتے جاؤ انہیں مسائل میں سے ایک مسلہ محبت و عقیدت میں بزرگوں کی دست بوسی و قدم بوسی بھی ہے جسے یہ شرک کے ٹھیکیدار شرک کہتے ہیں نا جانے وہ اس کسے حیثیت میں اور کیونکہ شرک کہتے ہیں خیر ہم اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتے بلکہ اس مسلہ پر مستند دلائل پیش کرتے ہیں فیصلہ اہل اسلام پر چھوڑت ہیں کہ وہ سوچیں کہ ان جہلا کے شرک کے جاہلانہ فتوے کِن کِن مقدس ہستیوں پر لاگو ہوتے ہیں آیئے دلائل کی روشنی میں اس مسلہ کو سمجھتے ہیں :
زارع بن عامر جو وفدِ عبد القیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے سے مروی ہے : لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِيْنَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم وَرِجْلَهُ ۔
ترجمہ : جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے ۔ اس حدیث کو صحاح ستہ میں سے سنن ابی داود (کتاب الادب، باب قبلۃ الجسد، 4: 357، رقم: 5225) میں روایت کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں اسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے السنن الکبری (7: 102) میں اور امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دو کتب المعجم الکبیر (5 : 275، رقم : 5313) اور المعجم الاوسط (1 : 133، رقم : 418) میں روایت کیا ہے ۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ''الادب المفرد'' میں باب تقبيل الرِّجل قائم کیا ہے یعنی ''پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان۔ '' اس باب کے اندر صفحہ نمبر 339 پر حدیث نمبر 975 کے تحت انہوں نے مذکورہ بالا حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : قَدِمْنَا, فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا .
ترجمہ : ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور اُنہیں بوسہ دینے لگے ۔
یہ الفاظ خاص مفہوم کے حامل ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ہاتھ مبارک پکڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ہاتھوں کے علاوہ پاؤں مبارک کو بھی بوسہ دینے کا عمل جاری رکھا درآں حالیکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک پکڑ رکھے تھے ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ قومِ یہود کے بعض افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں : فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ .
ترجمہ : انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا، اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں ۔
اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے السنن (کتاب تحریم الدم، 7 : 111، رقم : 4078،چشتی) میں اور امام ابن ماجہ نے السنن (کتاب الادب، باب الرجل یقبّل ید الرجل، 2: 1221، رقم: 3705) میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو الجامع میں دو جگہ روایت کیا ہے: پہلی بار ابواب الاستئذان والآداب میں باب فی قبلۃ الید والرجل (5: 77، رقم: 2733) میں اور دوسری بار ابواب التفسیر کے باب ومن سورۃ بنی اسرائیل (5: 305، رقم: 3144) میں ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے المسند (4: 239، 240) میں، امام حاکم نے المستدرک (1: 52، رقم: 20) میں، امام طیالسی نے المسند (ص: 160، رقم: 1164) میں اور امام مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے الاحادیث المختارہ (8: 29، رقم: 18،چشتی) میں روایت کیا ہے ۔
اتنے اجل محدثین علیہم الرّحمہ کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں ۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا ۔
ممدوح وہابیہ ، دیابنہ علامہ ابن تیمیہ کے جلیل القدر شاگرد حافظ ابن کثیر سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 101 کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات پر خفا ہو کر جلال میں آگئے تو :
فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اﷲ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہو گئے ۔ اس روایت کو دیگر مفسرین نے بھی متعلقہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجل صحابی کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومنا اور خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انہیں منع نہ فرمانا کیا (معاذ اللہ) عقیدہ توحید کی خلاف ورزی تھا ۔
امام مقری رحمۃ اللہ علیہ (م 381ھ) اپنی کتاب تقبیل الید (ص: 64، رقم: 5) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن میں کچھ مزید چاہتا ہوں تاکہ میرے یقین میں اضافہ ہوجائے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو اعرابی کے بلاوے پر ایک درخت اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔ اس کے بعد طویل روایت ہے اور آخر میں اعرابی نے تمام نشانیاں دیکھنے کے بعد عرض کیا : يا رسول الله! أئذن لي أن أقبل رأسك ورجلك .
ترجمہ : اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کاسر اقدس اور قدم مبارک چوم لوں ۔ اس کے بعد روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کو اجازت مرحمت فرمائی ۔ اور پھر اس اعرابی نے سجدہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت نہ دی ۔ امام مقری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری (11: 57) میں نقل کیا ہے ۔ نیز علامہ مبارک پوری نے بھی تحفۃ الاحوذی (7: 437) میں اس روایت کو نقل کیا ہے ۔
یہ روایت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم چومنے کی اجازت تو دی لیکن سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر قدم چومنا اور سجدہ کرنا برابر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ان کے مابین فرق نہ فرماتے اور دونوں سے منع فرما دیتے ۔
یہاں تک آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک چومے جانے پر چند احادیث کا حوالہ دیا گیا ، جس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدم بوسی ہرگز کوئی شرکیہ عمل نہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی ذات اقدس کے لیے بھی کبھی اس کی اجازت نہ دیتے ۔
کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُنہیں اِس عمل سے نہ روکنا اور سکوت فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی اجازت نہ تھی ؟
کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ عمل سنتِ تقریری نہ قرار پایا ؟
اگر پاؤں چومنا نعوذ باﷲ سجدہ ہے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہے تھے؟
کیا (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - جو توحید کا پیغام عام کرنے اور شرک کے خاتمے کے لیے مبعوث ہوئے - خود شرک کے عمل کی اجازت دے رہے تھے ؟
کاش! قدم بوسی پر اعتراض کرنے والے پہلے کچھ مطالعہ ہی کر لیتے ۔
کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ قدم بوسی صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مخصوص ہے ۔ لہٰذا ذیل میں ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غیر انبیاء صالحین اور مشائخ عظام اور اکابر اسلام کی دست بوسی و قدم بوسی کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ علماے کرام اور مشائخ عظام کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی نسبت سے تعظیم و احترام بجا لانا منشاء اِسلام ہے ۔ اِن کی تعظیم کو شرک کہنا باطل اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے ۔ کتب سیر و احادیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اکابرین کی قدم بوسی ہمیشہ اہل محبت و ادب کا معمول رہی ہے ۔ اِس سلسلے میں چند نظائر پیش خدمت ہیں :
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، وہ بیان کرتے ہیں : رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ وَيَقُوْلُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي .
ترجمہ : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں چومتے دیکھا اور آپ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے: اے چچا! مجھ سے راضی ہوجائیں ۔ اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الادب المفرد (ص: 339، رقم: 976) میں، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیر اعلام النبلاء (2: 94) میں، امام مزی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الکمال (13: 240، رقم: 2905) میں اور امام مقری رحمۃ اللہ علیہ نے تقبیل الید (ص: 76، رقم: 15،چشتی) میں روایت کیا ہے ۔
آسمان علم کے روشن ستارے اور ہر مسلک و مکتبہ فکر کے متفقہ محدث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب الادب المفرد میں ہاتھ چومنے پر ایک پورا باب (نمبر 444) قائم کیا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب تقبيل اليد میں ''ہاتھ چومنے'' کے حوالے سے تین احادیث بیان کی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ صحابہ کرام، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارکہ کو چوما کرتے تھے؛ اور جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ چومتے تو اسی طرح تابعین، صحابہ کرام کے ہاتھ چومتے۔ ان احادیث کو ذکر کر کے امام بخاری آدابِ زندگی بتارہے ہیں کہ بزرگوں کی سنت یہ تھی کہ شیوخ اور اکابر کا ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کا الگ باب قائم کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اِس باب کے فوری بعد پاؤں چومنے کا باب - بَابُ تَقْبِيْلِ الرِّجْل - لائے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الادب میں ان ابواب کو ترتیب دے کر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھ چومنا اور قدم چومنا آداب میں سے ہے ۔ اگر وہ اس عمل کو شرک یا سجدہ سمجھتے تو کبھی بھی آداب زندگی کے بیان پر مشتمل اپنی کتاب میں یہ ابواب قائم نہ کرتے اور نہ ہی ایسی احادیث لاتے ۔
اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد امت مسلمہ کے نزدیک ثقہ ترین محدث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے شہر نیشاپور میں جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس حاضر ہوئے تو اَئمہ کے اَحوال پر مبنی تمام کتب میں درج ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ماتھا چوما اور پھر ان سے اجازت مانگی کہ : دعني حتی أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله .
ترجمہ : اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں ۔
اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ ابن نقطہ رحمۃ اللہ علیہ نے 'التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (1: 33)'میں، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے 'سیر اعلام النبلاء (12: 432، 436)' میں، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے 'تہذیب الاسماء واللغات (1: 88)' میں، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمۃ فتح الباری (ص: 488)' میں اور برصغیر کے نام ور غیر مقلد نواب صدیق حسن قنوجی نے 'الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ (ص: 339،چشتی) میں روایت کیا ہے ۔
علامہ شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ حواشی (4: 84)' میں لکھتے ہیں : قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله ۔
ترجمہ : یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں چومنا مسنون عمل ہے ۔
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا : نعم، جئت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لم آت الحجر .
ترجمہ : ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422)(حاکم، المستدرک، 4 : 515، رقم : 8571)(طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999)(طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 199، 200، رقم : 286 أيضاً، 10 : 169، رقم : 9362،چشتی)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مسلک دیوبند کے نام ور عالم اور جامع الترمذی کے شارح علامہ ابو العلاء عبد الرحمان بن عبد الرحیم مبارک پوری کا علم الحدیث میں ایک نمایاں مقام ہے ۔ انہوں نے تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کی جلد سات کے صفحہ نمبر 437 پر ہاتھ اور پاؤں چومنے پر مذکورہ بالا تمام روایات بطور استشہاد درج کی ہیں، جس کے ان کے مسلک و مشرب کا واضح پتا چلتا ہے ۔ اِس طرح کی بے شمار روایات بطور حوالہ پیش کی جاسکتی ہیں ، مگر چند ایک کے حوالہ جات دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ، جوکہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صلحاء اور اَتقیاء کی دست بوسی و قدم بوسی کرنا جائز اور پسندیدہ عمل ہے ۔ اہل تصوف و روحانیت مانتے ہیں کہ قدم بوسی معمول کا عمل نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنے والا عقیدت و محبت سے کرتا ہے ۔ اور ایسا عمل بالخصوص قدم بوسی کا عمل ایسی شخصیت کے لیے بجا لایا جاتا جو علم و عمل میں اپنے دور کے امام کی حیثیت رکھتی ہو ۔