سیرت صدر الافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی
صدر الافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی
🌹امام الھند سلطان المناظرین سید المفسرین حضور صدرالافاضل فخر الاماثل علامہ مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ العزیز🌹
=ولادت مبارکہ
آپ کی ولادت 21؍ صفرالمظفر 1300ھ بمطابق یکم جنوری 1883ء بروز پیر کو شہر مرادآباد میں ہوئی۔
= اسم مبارک =
آپ کا تاریخی نام مبارک ’’غلام مصطفی‘‘ تھا۔
مگر عرفی نام "سید محمد نعیم الدین" شہرت پذیر وہمہ گیر ہے۔
= خاندان =
آپ کاخانوادہ علم و فضل میں یگانہ تسلیم کیا جاتا تھا ۔ والد ماجدمولانا سید محمد معین الدین المتخلص بہ نزہتؔ مرادآبادی (م 1339ھ) اور جد امجد مولانا سید محمد امین الدین راسخ ؔبن مولانا سید محمد کریم الدین آرزوؔ اپنے عہد کے مشاہیر علما و شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔
اور موجودہ دور میں بھی یہ نعیمی خانوادہ اپنی امتیازی شان کے ساتھ دین وسنیت خدمت میں ہمہ تن مصروف عمل ہے۔
=تعلیم و تربیت=
حضرت صدرالافاضل کی ابتدائی تعلیم و تربیت والد ماجد مولانا سیدمحمد معین الدین نزہتؔ مرادآبادی قدس سرہ کی آغوش میں ہوئی۔
محض آٹھ سال کی مختصر سی عمر میں حافظ سید نبی بخش اور حافظ حفظ اللہ خاں علیہما الرحمہ کے پاس حفظِ قرآن کی تکمیل کی ۔
بعدہٗ مولانا شاہ حکیم فضل احمد امروہوی قدس سرہ سے استفادہ کیا۔
دارالعلوم امدادیہ مرادآباد ( جو اب وہابیوں کے زیر تسلط ہے ) میں مولانا سید گل محمد علیہ الرحمہ سے دورۂ حدیث مکمل کیا ۔ 1320ھ بمطابق 1903ء میں اس زمانے کے جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ سے آراستہ ومزین ہوکرتعلیم سے فراغت حاصل کی۔
والد ماجد مولانا سید محمد معین الدین نزہت ؔ مرادآبادی علیہ الرحمہ نے درج ذیل شعر سے دستارِ فضیلت کا سال استخراج فرمایا ؎
ہے میرے پسر کو طلباء پر وہ فضیلت
سیاروں میں رکھتا ہے جو مریخ فضیلت
نزہتؔ نعیم الدین کو یہ کہہ کے سُنادے
دستارِ فضیلت کی ہے تاریخِ "فضیلت"
(1320ھ)
=عقد مسنون=
1322ھ کو صاحبزادی رئیس اعظم کے ہمراہ ہوا۔
=اولاد امجاد=
چار صاحبزادے:
1۔ صدرالعلماء علامہ مفتی سید مظفرالدین نعیمی۔
2۔ رہنمائے ملت علامہ سید اختصاص الدین نعیمی۔
3۔ علامہ حکیم سید ظہیر الدین نعیمی۔
4۔ حضرت مولانا حکیم سید اظہار الدین عرف حنفی میاں۔
اور چار صاحبزادیاں (علیھم الرحمة والمغفرة والرضوان)
= بیعت وارادت =
حضرت صدرالافاضل مولاناسید محمد نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی قدس سرہ نے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں اپنے استاذِ مکرم شیخ الکل حضرت علامک مولانا سید گل محمد علیہ الرحمہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا، اور اجازت و خلافت سے نوازے گئے۔
حضرت مولانا سید گل محمد علیہ الرحمہ نے بیعت کے بعد آپ کو قطب دوراں، شیخ المشائخ، حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہٗ (م 1355ھ) کے سپرد کردیا۔
حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے آپ سے روحانی اکتسابِ فیض کیا اور آپ سے بھی تمغہءخلافت و اجازت حاصل کیا۔
حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ کی اجازت سے
صدرالافاضل علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ (1340ھ) سے بھی خلافت و اجازت حاصل کی۔
= لقب و خطاب =
تدریس میں خاصا کمال حاصل تھا اور 'استاذ العلماء' کے لقب سے مشہور تھے۔
اعلیحضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی قدس سرہ نے انہیں "صدرالافاضل" کا خطاب دیا۔
= صحافت =
ایک عرصہ تک مولانا ابو الکلام آزاد کے رسائل "البلاغ" اور"الہلال" میں مضامین لکھتے رہے، بعدہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بدعقیدگی کے ظاہر ہونے کے بعد اپنی ادارت میں مرادآباد سے " السواد الاعظم " جاری کیا، جو تا حیات جاری رہا۔
بعدہ مولانا غلام معین الدین نعیمی کی ادارت میں پاکستان سے شائع ہوا۔
برسوں بعد " السواد الاعظم " کو ازسرنو ماہر اللسان، ساحر البیان، عمدہ قلمکار، فاضل نوجوان حضرت علامہ مولانا غلام مصطفی صاحب نعیمی مدظلہ العالی نے "سہ ماہی سواد اعظم دہلی" کے نام سے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی سے جاری کیا ہے، رب تعالٰی سے دعا کہ موصوف کے عزم و ہمت میں استقلال عطا فرمائے، علم وعمل میں برکت دے، اور دعا ہیکہ یہ "سہ ماہی" سے "ماہنامہ" میں تبدیل ہوجائے۔ اللھم آمین
= تصانیف =
بیس برس کی عمر میں مولانا شاہ محمد سلامت اللہ رام پوری قدس سرہ کے رسالہ "اعلام الاذکیا" کی تائید میں "الکلمتہ العلیاء" لکھی۔
آپ زبردست مناظر تھے، اسلئے سلطان المناظرین کے لقب سے مشہور تھے۔
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے ترجمۂ قرآن "کنز الایمان" پر تفسیری حاشیہ بنام "خزائن العرفان" تحریر کیا۔
دینی وملی، سیاسی وسماجی، تدریسی اور تبلیغی خدمات کے باوجود صدر الافاضل نے تقریباً ڈھائی سو مقالات، تین درجن سے بھی زیادہ کتابیں بطور یاد گار چھوڑی ہیں، جن میں سے مطبوعہ وغیر مطبوعہ چند یہ ہیں۔
{1} تفسیر خزائن العرفان
{2} نعیم البیان فی تفسیر القرآن
{3} الکلمۃ العلیا لاعلاء علم المصطفی
ٰ{4} اطیب البیان در رد تقویۃ الایمان
{5} مظالم نجدیہ برمقابر قدسیہ
{6} اسواط العذاب علی قوامع القباب
{7} آداب الاخیار
{8} سوانح کربلا
{9} سیرت صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم
{10} التحقیقات لدفع التلبیسات
{11} ارشاد الانام فی محفل لمولود والقیام
{12} کتاب العقائد
{13} زاد الحرمین
{14} الموالات
{15} گلبن غریب نواز
{16} شرح شرح مائۃ عامل
{17} پراچین کال
{18} فن سپاہ گری
{19} شرح بخاری (نامکمل غیر مطبوع)
{20} شرح قطبی (نامکمل غیر مطبوع)
{21} ریاض نعیم (مجموعہ کلام)
{22} کشف الحجاب عن مسائل ایصال ثواب
{23} فرائد النور فی جرائد القبور۔
اس کے علاوہ نہ جانے کتنے فتاوی آپ کے قلم سے مسطور ہوئے، جن میں سے معدودے "فتاوی صدرالافاضل" کے نام سے کچھ سال قبل شائع ہوئے ہیں، اگر پہلے سے اس طرف توجہ دی گئی ہوتی تو آپ کے مبارک فتاوی کا ذخیرہ کئی جلدوں پر مشتمل ہوتا۔
= تلامذہ =
حضور صدرالافاضل کے تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔
جن میں سے چند یہ ہیں۔
1۔ تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی۔
2۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی۔
3۔ مفتئ اعظم پاکستان ابو الحسنات سید محمد نعیمی۔
4۔ مولانا سید سعید احمد کاظمی نعیمی۔
5۔ سید مختار اشرف جیلانی نعیمی کچھوچھوی۔
6۔ امام النحو مفتی غلام جیلانی میرٹھی۔
7۔ حافظ ملت علامہ عبدالعزیز نعیمی محدث مرادآبادی۔
8۔ ضیاء امت علامہ پیر کرم شاہ نعیمی الازہری سابق چیف جسٹس پاکستان۔
9۔ علامہ ظہور احمد صاحب نعیمی۔
10۔ مبلغ اسلام مفتی نذیر الاکرم صاحب نعیمی۔
11۔ مفتی اعظم راجستھان علامہ اشفاق حسین صاحب نعیمی،
12۔ علامہ محمد اطہر نعیمی۔
13۔ شمس العلماء قاضی شمس الدین نعیمی جونپوری۔
14۔ مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن نعیمی اڑیسوی۔
15۔ اجمل العلماء مفتی اجمل حسین نعیمی سنبھلی۔
وغیرہم (علیہم الرحمۃوالرضوان)
یہ وہ شاگرد ہیں جنکے انوار و تجلیات سے آج پوری دنیائے اسلام منور و تاباں ہے۔
=کار نامے=
شدھی تحریک کے قلعہ قمع کیلئے آپ نے "جماعت رضائے مصطفی" بریلی شریف کے پلیٹ فارم سے مجاہد صفت علماء کرام کی معیت میں وہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا جو تاریخ اسلامی کا درخشندہ باب ہے۔
مسلمانوں کو اس دور کے ان گنت فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے آپ نے 1924ء میں "آل انڈیا سنی کانفرنس" جیسی عظیم الشان تحریک کی داغ بیل ڈالی، جسکا پہلا اجلاس مورخہ 16 تا 18 مارچ 1925ء میں مرادآباد کی سرزمین پر منعقد ہوا۔
دوسرا اجلاس 27 تا 30 اپریل 1946ء کو بنارس کی سرزمین پر انعقاد پذیر ہوا، جس میں تقریبا چوبیس ہزار علماء و مشائخ نے شرکت کی، اور تقریبا تین لاکھ سے زائد کا مجمع تھا۔ جس کی مقبولیت اس دور کے اخبار و جرائد سے بخوبی معلوم کی جاسکتی ہے۔
نیز قیام جامعہ نعیمیہ مرادآباد ( 1909) آپ کا وہ عظیم الشان کارنامہ ہے کہ تا قیام قیامت پوری ملت اسلامیہ جس سے استفادہ کرتی رہےگی۔ ان شاءاللہ تعالٰی۔
اس کے علاوہ پورے عالم سنیت کی کوئی تحریک وتنظیم، اور ادارہ ایسا نہیں جسکی جڑیں حضور صدرالافاضل سے نہ جڑی ہوں
= وصال مبارک ومزار پر انوار =
آپ نے 18؍ ذی الحجہ 1367ھ مطابق 23؍اکتوبر 1948ء بروز جمعہ رات ساڑھے بارہ بجے وفات پائی۔
مزار پر انوار اندرون جامعہ نعیمیہ دیوان بازار مرادآباد ( ہندوستان ) مرجع عوام و خواص ہے۔
ہر سال 16۔ 17۔ 18 ذوالحجہ کو آپکا عرس مبارک پوری شان و شوکت سے شہزادگان کی سرپرستی میں منعقد کیا جاتا ہے۔
(منقول)
✒️خیرخواہ اہلسنت
نازش المدنی مرادآبادی غفر لہ الھادی