انسان کا جسم مرنے کے بعد مٹی ہو جائے گا
"انسان کا جسم مرنے کے بعد مٹی ہو جائے گا"
سورہ ق آیت 3 میں رب العزت ارشادِ فرماتا ہے ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًاۚ-ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ
ترجمہ کنز الایمان: کیا جب ہم مرجائیں اور مٹی ہوجائیں گے پھر جئیں گے یہ پلٹنا دُور ہے۔
کفارِ مکہ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر بھی تعجب کیا اور کہا: مرنے کے بعدجب ہمارے جسم کے اَجزاء زمین میں بکھر جائیں گے اور ہم بوسیدہ ہو کر مٹی ہو جائیں گے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ جیسا ابھی ہمارا جسم ہے اور جس طرح ابھی ہم زندہ ہیں دوبارہ اسی طرح ہمارا جسم بن جائے اور ہم پھر سے زندہ ہو جائیں ،اس کا واقع ہونا عقلی طور پربعید ہے اور ایسا ہوتا کبھی دیکھا نہیں گیا۔کفارِ مکہ کی اس بات کا رد کرتے اور انہیں جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اُن کے جسم کے جو حصے، گوشت، خون اور ہڈیاں وغیرہ زمین کھا جاتی ہے ان میں سے کوئی چیز ہم سے چھپی نہیں بلکہ ہم ان کے بدن کے ہر حصے کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ بکھر کر کہا ں گیا اور کس چیز میں مل گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایک یاد رکھنے والی کتاب لوحِ محفوظ ہے جس میں ان کے اسماء، اَعداد اور جو کچھ ان کے جسم میں سے زمین نے کھایا سب درج،لکھا ہو ااور محفوظ ہے۔جب ہمارے علم کا یہ حال ہے اور ہم انہیں ویسے ہی زندہ کرنے پر قادر بھی ہیں جیسے پہلے تھے تو پھر انہیں پہلے کی طرح دوبارہ زندہ کر دیا جانا عقل سے کیسے دور ہے۔( ابن کثیر ، ق ، تحت الآیۃ : ۳-۴، ۷ / ۳۶۹ ، ابو سعود ، ق، تحت الآیۃ: ۳
-۴، ۵ / ۶۱۷، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۱۷۴-۱۷۵، ملتقطاً
مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی ہو جائے گا،اس سلسلے میں یاد رہے کہ انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بلکہ ا س کا بدن خاک ہو جاتا ہے اور وہ بھی سارا بدن نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ باریک اصلی اجزاء جنہیں ’’عُجُبُ الذَّنْب‘‘ کہتے ہیں ،وہ جلتے اور گلتے نہیں بلکہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں اور قیامت کے دن انہی اجزا پر جسم کو دوبارہ بنایا جائے گا ،جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’انسا ن کے جسم میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے مٹی کبھی نہیں کھا سکے گی اور قیامت کے دن اسی پر (بدن کی) ترکیب کی جائے گی ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ ہڈی کون سی ہے؟ ارشاد فرمایا’’عُجُبُ الذَّنْب‘‘۔(مسلم، کتاب الفتن واشراط السّاعۃ، باب مابین النّفختین، ص۱۵۸۱، الحدیث: ۱۴۳(۲۹۵۵
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ـ:انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عُجُبُ الذَّنْب کہتے ہیں ، وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، اُنھیں پر روز ِقیامت ترکیب ِجسم ہوگی۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۶۵۸
کفارِ مکہ کی انتہائی جہالت:
کفارِ مکہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا،اس کے باوجود وہ اس بات کو محال اور بعید سمجھتےہیں کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ پیدا فرمائے گا۔یہ ان کی کمال جہالت تھی کیونکہ ایجاد کے مقابلے میں دوبارہ بنانا ظاہرنظر میں زیادہ آسان ہے اور یہ لوگ ایجاد پر تو قدرت مان رہے ہیں اور اس سے زیادہ آسان پر قدرت کا انکار کر رہے ہیں ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو جواب ارشاد فرماتا ہے اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِؕ-بَلْ هُمْ فِیْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۠(سورہ ق آیت 15) تو کیا ہم پہلی بار بناکر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں ۔
انبیاء،شہداء اوراولیاء اپنے اَجسام اور کفنوں کے ساتھ زندہ ہیں :
یاد رہے کہ بعض عام مومنین اور دیگر انتقال کر جانے والوں کے اَجسام قبر میں اگرچہ سلامت نہیں رہتے البتہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، شہداء اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے مبارک جسم قبروں میں سلامت رہتے ہیں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہلِسنَّت کے نزدیک انبیاء وشہداء عَلَیْہِمُ التَّحِیَّۃُ وَ الثَّنَاء اپنے اَبدانِ شریفہ سے زندہ ہیں بلکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ابدانِ لطیفہ زمین پر حرام کئے گئے ہیں کہ وہ ان کو کھائے، اسی طرح شہداء و اولیاء عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ وَ الثَّنَاء کے اَبدان وکفن بھی قبور میں صحیح و سلامت رہتے ہیں وہ حضرات روزی ورزق دئیے جاتے ہیں ۔
علامہ سبکی شفاء السقام میں لکھتے ہیں :شہداء کی زندگی بہت اعلیٰ ہے، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جوان کے ہم مرتبہ نہیں اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلیٰ ہے اس لیے کہ وہ جسم وروح دونوں کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں تھی اور ہمیشہ رہے گی۔( شفاء السقام، الباب التاسع فی حیاۃ الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، الفصل الرابع، ص۴۳۱
اور قاضی ثناءُاللہ صاحب پانی پتی تذکرۃُ الموتٰی میں لکھتے ہیں : اَولِیاءُاللہ کا فرمان ہے کہ ہماری روحیں ہمارے جسم ہیں ۔ یعنی ان کی اَرواح جسموں کا کام دیا کرتی ہیں اور کبھی اَجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے ارواح کی طرح ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا سایہ نہ تھا۔ ان کی ارواح زمین آسمان اور جنت میں جہاں بھی چاہیں آتی جاتی ہیں ، اس لیے قبروں کی مٹی ان کے جسموں کو نہیں کھاتی ہے بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے۔ ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں ۔ مومنین سے مراد کاملین ہیں ، حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں ۔( تذکرۃ الموتیٰ والقبور اردو، ص۷۵
اور شیخُ الہند محدّثِ دہلوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کے اولیاء اس دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف ُکوچ کرگئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں ، انھیں رزق دیا جاتاہے، وہ خوش حال ہیں ، اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں ۔( اشعۃ اللمعات، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، ۳ / ۴۲۳-۴۲۴
اور علامہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں : اولیاء اللہ کی دونوں حالتوں (حیات ومَمات) میں اصلاً فرق نہیں ، اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الفصل الثالث، ۳ / ۴۵۹-۴۶۰، تحت الحدیث: ۱۳۶۶)۔( فتاوی رضویہ، ۹ / ۴۳۱-۴۳۳
انتقال کے بعد اولیاءِکرام کی زندگی کے5 واقعات:
علامہ جلا ل الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح الصُّدُور میں انتقال کے بعد اولیائے کرام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے بارے میں چند مُستَنَد رِوایات لکھی ہیں اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے انہیں فتاویٰ رضویہ میں بھی نقل فرمایا ہے ،ان میں سے5روایات درج ذیل ہیں :
(1)…مشہور ولی حضرت ابو سعید خراز رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں مکہ مُعَظَّمَہ میں تھا، بابِ بنی شیبہ پر ایک جوان مردہ پڑا پایا، جب میں نے اس کی طرف نظر کی تو مجھے دیکھ مسکرایا اورکہا: اے ابو سعید!کیاتم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے زندہ ہیں اگر چہ مرجائیں ، وہ تو یہی ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل کئے جاتے ہیں ۔( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۷
(2)…حضرت سیدی ابو علی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے ایک فقیر کو قبر میں اتارا، جب کفن کھولا توان کا سرخاک پر رکھ دیا کہ اللہ تعالیٰ ان کی غُربَت پر رحم کرے۔ فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا:اے ابو علی!تم مجھے اس کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو میرے ناز اٹھا تا ہے۔میں نے عرض کی:اے میرے سردار!کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ آپ نے فرمایا :میں زندہ ہوں ، اور خدا کا ہر پیارا زندہ ہے، بیشک وہ وجاہت وعزت جو مجھے قیامت کے دن ملے گی اس سے میں تیری مدد کروں گا۔( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۸، ملتقطاً
(3)… حضرت ابراہیم بن شیبان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میرا ایک جوان مرید فوت ہوگیاتو مجھے سخت صدمہ ہوا، جب میں اسے غسل دینے کے لئے بیٹھاتوگھبراہٹ میں بائیں طرف سے ابتداء کی،اس جوان مرید نے وہ کروٹ ہٹا کر اپنی دائیں کروٹ میری طرف کر دی۔ میں نے کہا:اے بیٹے!تو سچا ہے، مجھ سے غلطی ہوئی۔(شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۸
(4)… حضرت ابو یعقو ب سوسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں نے ایک مرید کو نہلانے کے لیے تختے پر لِٹایا تو اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔ میں نے اس سے کہا:اے بیٹے!میرا ہاتھ چھوڑ دے ،بے شک میں جانتا ہوں کہ تو مردہ نہیں ، یہ تو صرف مکان بدلنا ہے،اس لئے میرا ہاتھ چھوڑدے ۔(شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۸
(5)… حضرت ابو یعقو ب سوسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :مکہ مُعَظَّمَہ میں ایک مرید نے مجھ سے کہا:اے میرے پیر ومرشد!میں کل ظہر کے وقت مرجاؤں گا، حضرت ،ایک اشرفی لیں ، آدھی میں میرا دفن اور آدھی میں میرا کفن کریں ۔ جب دوسرا دن ہوا اور ظہر کا وقت آیا تو ،مذکورہ مرید نے آ کر طواف کیا، پھر کعبے سے ہٹ کر لیٹا اور انتقال کر گیا،جب میں نے اسے قبر میں اتارا تو ا س نے آنکھیں کھول دیں ۔ میں نے کہا:کیا موت کے بعدزندگی ہے ؟ اس نے کہا:میں زندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کا ہر دوست زندہ ہے۔( شرح الصدور، باب زیارۃ القبور وعلم الموتی بزوارہم... الخ، تنبیہ، ص۲۰۸، ملتقطاً
پیشکش عبداللہ ھاشم عطاری مدنی 03313654057