یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"نکاح کی سنت کو عام اور آسان کرو"





"نکاح کی سنت کو عام اور آسان کرو "
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ط
         اللہ عزوجل فرماتاہے:
{ فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ  فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً }( پ۴،النساء۳۔  
ترجمہ نکاح کرو جو تمھیں  خوش آ ئیں  عورتوں  سے دو دو اور تین تین اورچار چار۔ اور اگر یہ خوف ہوکہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک سے۔
                اور فرما تا ہے:
                { وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۳۲)وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-}(2پ۱۸،النور:۳۲۔۳۳)
 ترجمہ اپنے یہاں  کی  بے شوہر والی عورتوں  کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں  اور باندیوں  کا۔ اگر وہ محتاج ہوں  تو اللہ  (عزوجل) اپنے فضل کے سبب اُنھیں  غنی کر دے گا۔ اور اللہ  (عزوجل) وسعت والا علم والا ہے اور چاہیے کہ پارسائی کریں  وہ کہ نکاح کا مقدور نہیں  رکھتے یہاں  تک کہ اللہ  (عزوجل) اپنے فضل سے انھیں  مقدور والا کر دے۔

(نکاح کے فضائل اورنیک عورت کی  خوبیاں  )
          حدیث ۱:  بخاری و مسلم و ابو داود و ترمذی و نسائی عبداللہ بن مسعود رضی  اللہ تعالٰی  عنہ سے راوی، رسول اللہ  صلی  ا للہ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے جوانو(۱) تم میں  جوکوئی نکاح کی  استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی  طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی  حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں  نکاح کی  استطاعت نہیں  وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطع شہوت ہے۔‘‘  (صحیح البخاري‘‘،کتاب النکاح،باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم،الحدیث:۵۰۶۶،ج۳،ص۴۲۲۔

          حدیث ۲:  ابن ماجہ انس رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ حضورِ اقدس صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم فرماتے ہیں  : ’’جو خدا سے پاکوصاف ہو کر ملنا چاہے، وہ آزاد عورتوں  سے نکاح کرے۔‘‘  (سنن ابن ماجہ‘‘،أبواب النکاح،باب تزویج الحرائروالولود،الحدیث:۱۸۶۲،ج۲،ص۴۱۷۔)
حدیث ۳:  بیہقی ابوہریرہ رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو میرے طریقہ کو محبوب  رکھے، وہ میری سُنت پر چلے اور میری سُنت سے نکاح ہے۔‘‘  (کنزالعمال ‘‘،کتاب النکاح،الحدیث:۴۴۴۰۶،ج۱۶،ص۱۱۶)
حدیث ۴:  مسلم و نسائی عبداللہ  بن عمرو رضی اللہ  تعالٰی   عنہما سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم) نے فرمایا: دنیا متاع ہے اور دنیا کی  بہترمتاع نیک عورت۔‘‘  (’’صحیح مسلم‘‘،کتاب الرضاع،باب خیر متاع الدنیا۔۔۔إلخ،الحدیث: ۱۴۶۷،ص۷۷۴۔
)
حدیث ۵:  ابن ماجہ میں  ابو امامہ رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم فرماتے تھے، تقوے کے بعد مؤمن کے لیے نیک بی بی سے بہتر کوئی چیز نہیں  ۔ اگر اُسے حکم کرتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور  اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں  کو چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں  بھلائی کرے (خیانت و ضائع نہ کرے)۔ (’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب النکاح،باب افضل النساء،الحدیث:۱۸۵۷،ص۴۱۴۔  )
حدیث ۶:  طبرانی کبیر و اوسط میں  ابن عباس رضی اللہ  تعالٰی   عنہما سے راوی، کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم نے فرمایا:    ’’جسے چار چیزیں  ملیں  اُسے دُنیا و آخرت کی  بھلائی ملی۔(۱) دل شکر گزار،(۲) زبان یادِ خدا کرنے والی اور(۳)بدن بلا پر صابر اور(۴) ایسی بی بی کہ اپنے نفس اور مالِ شوہر میں  گناہ کی  جویاں   نہ ہو۔‘‘  (’’المعجم الکبیر‘‘،الحدیث:۱۱۲۷۵،ج۱۱،ص۱۰۹۔)
حدیث ۷:  امام احمد و بزار و حاکم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزیں  آدمی کی  نیک بختی سے ہیں  اور تین چیزیں  بد بختی سے۔ نیک بختی کی  چیزوں  میں  نیک عورت اور اچھا مکان (یعنی وسیع یا اس کے پروسی اچھے ہوں  ) اور اچھی سواری اور بدبختی کی  چیزیں  بد عورت، بُرا مکان، بُری سواری۔‘‘  (’’المسند‘‘،للإمام أحمد بن حنبل،مسند أبی اسحاق سعد بن أبي وقاص،الحدیث:۱۴۴۵،ج۱،ص۳۵۷۔
حدیث ۸:  طبرانی و حاکم انس رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم) نے فرمایا: جسے اللہعزوجل) نے نیک بی بی نصیب کی  اس کے نصفدین پر اعانت    فرمائی تو نصف باقی میں  اللہ  (عزوجل) سے ڈرے (تقویٰ و پرہیزگاری کرے)۔  (’’المعجم الأوسط‘‘،الحدیث:۹۷۲،ج۱،ص۲۷۹۔
حدیث ۹:  بخاری و مسلم و ا بوداود و نسائی و ابن ماجہ ابی ہریرہ رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت سے نکاح چار باتوں  کی  وجہ سے کیا جاتا ہے (نکاح میں  ان کا لحاظ ہوتا ہے)۔(۱) مال و (۲) حسب و(۳) جمال و (۴) دِین اور تو دِین والی کو ترجیح دے۔‘‘  (’’صحیح البخاري‘‘،کتاب النکاح،باب الأکفاء في الدین،الحدیث:۵۰۹۰،ص۴۲۹۔
)
حدیث ۱۰:  ترمذی و ابن حبان و حاکم ابوہریرہ رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخصوں  کی  اللہ  تعالٰی   مدد فرمائے گا۔ (۱) اللہ  (عزوجل) کی  راہ میں  جہاد کرنے والا اور(۲)مکاتب کہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور(۳) پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا۔‘‘  (’’جامع الترمذی‘‘،أبواب فضائل الجھاد،باب ماجاء فی المجاھد۔۔۔إلخ،الحدیث: ۱۶۶۱،ج۳،ص۲۴۷۔)
حدیث ۱۱:  ابو داود و نسائی و حاکم معقل بن یسار رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ ایک شخص نے رسول اللہ  صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم کی  خدمت میں  حاضر ہو کر عرض کی ، یارسول اللہ  (صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم) (۱) میں  نے عزت و منصب و مال والی ایک عورت پائی، مگر اُس کے بچہ نہیں  ہوتا کیا میں  اُس سے نکاح کر لوں  ؟ حضور (صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم) نے منع فرمایا۔ پھر دوبارہ حاضر ہو کر عرض کی ، حضور   (صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم) نے منع فرمایا، تیسری مرتبہ حاضر ہو کر پھر عرض کی ، ارشاد فرمایا: ’’ایسی عورت سے نکاح کرو، جو محبت کرنے والی، بچہ جننے والی ہو کہ میں  تمھارے ساتھ اور اُمتوں  پر کثرت ظاہر کرنے والا ہوں  ۔‘‘  (’’سنن أبي داود‘‘،کتاب النکاح،باب النھي عن تزویج من لم یلد من النساء الحدیث:۲۰۵۰،ج۲،ص۳۱۹۔
حدیث ۱۲:  ابن ابی حاتم ابوبکر صدیق رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، اُنھوں  نے فرمایاکہ:  اللہ  (عزوجل) نے جو تمھیں  نکاح کا حکم فرمایا، تم اُسکی  اطاعت کرو اُس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پورا فرمائے گا۔ اللہ  تعالٰی   نے فرمایا: ’’اگر وہ فقیر ہوں  گے تو اللہ  (عزوجل) اُنھیں  اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘ (…’’کنزالعمال ‘‘،کتاب النکاح،الحدیث:۴۵۵۷۶،ج۱۶،ص۲۰۳)
حدیث ۱۳:  ابویعلی جابر رضی اللہ  تعالٰی   عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں  : ’’جب تم میں  کوئی نکاح کرتا ہے تو شیطان کہتا ہےہائے افسوس(۱) ابن آدم نے مجھ سے اپنا دو تہائی دین بچا لیا۔‘‘  (کنزالعمال ‘‘،کتاب النکاح،الحدیث: ۴۴۴۴۷،ج۱۶،ص۱۱۸۔    ) 
     حدیث ۱۴:  ایک روایت میں  ہے، کہ فرماتے ہیں  : ’’جو اتنا مال رکھتا ہے کہ نکاح کرلے، پھر نکاح نہ کرے، وہ ہم میں  سے نہیں  ۔‘‘( المصنف‘‘،لابن أبی شیبۃ،کتاب النکاح، فی التزویج من کان یامر بہ ویحث علیہ،ج۳،ص۲۷۰۔)
نکاح کے مستحبات)
  نکاح میں  یہ امور مستحب ہیں  :
                (۱)علانیہ ہونا۔(۲) نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا، کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں  وارد  ہوا۔(۳) مسجد میں  ہونا۔(۴) جمعہ کے دن۔(۵)گواہانِ عادل کے سامنے۔ (۶)عورت عمر، حسب مال، عزّت میں  مرد سے کم ہو اور (۷) چال چلن اور اخلاق و تقویٰ و جمال میں  زیادہ ہو۔  (الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۷۵۔) (۸) جس  سے نکاح کرنا ہو اُسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوالے اور عادت و اطوار و سلیقہ  وغیرہ کی  خوب جانچ کر لے کہ آئندہ خرابیاں  نہ پڑیں  ۔ (۹) کنواری  عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی  اُمید ہو نکاح کرنا بہتر ہے۔ سِن رسیدہ  اوربد خلق اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر۔  (ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیرًاما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ،ج۴،ص۷۶، وغیرہ۔)
 (۱۰) عورت  کو چاہیے کہ مرد دیندار، خوش خلق ، مال دار، سخی سے نکاح کرے، فاسِق بدکار سے نہیں  ۔ اور ۱۱ یہ بھی نہ چاہیے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی  کا بوڑھے سے نکاح کر دے۔  (ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیرًاما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ،ج۴،ص۷۷۔)
                یہ مستحباتِ نکاح بیان ہوئے، اگر اِس کے خلاف نکاح ہوگا جب بھی ہو جائے گا۔
حدیث مبارکہ میں  ہے: ’’جو کسی عورت سے بوجہ اُسکی  عزت کے نکاح کرے، اللہ  (عزوجل) اسکی  ذلّت میں  زیادتی  کرے گا اور جو کسی عورت سے اُس کے مال کے سبب نکاح کرے گا، اللہ  تعالٰی   اُسکی  محتاجی ہی بڑھائے گا اور اُس کے حسب کے سبب نکاح کرے گا تو اُس کے کمینہ پن میں  زیادتی فرمائے گا اور جو اس لیے نکاح کرے کہ اِدھر اُدھر نگاہ نہ اُٹھے اور پاکدامنی حاصل ہو یا صلۂ رحم کرے تو اللہ  عزوجل اس مرد کے لیے اُس عورت میں  برکت دے گا اور عورت کے لیے مرد میں  ۔‘‘  رواہ الطبرانی عن انس رضی  اللہ تعالٰی  عنہ کذا فی الفتح (  المعجم الاوسط‘‘،الحدیث ۲۳۴۲،ج۲،ص۱۸ )
نکاح کے ارکان:
ایجاب و قبول یعنی مثلاً ایک کہے میں  نے اپنے کو تیری زوجیت میں  دیا۔ دوسرا کہے میں  نے قبول کیا۔ یہ نکاح کے رکن ہیں  ۔ پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اور اُس کے جواب میں  دوسرے کے الفاظ کو قبول کہتے ہیں  ۔ یہ کچھ ضرور نہیں  کہ عورت کی  طرف سے ایجاب ہو اور مرد کی  طرف سے قبول بلکہ اِس کا اُلٹا بھی ہوسکتا ہے۔  ) الدرالمختار‘‘و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح،مطلب:کثیراً ما یتساھل في اطلاق المستحب علی السنۃ،ج۴،ص۷۸۔ )
(نکاح کے شرائط)
                نکاح کے لیے چند شرطیں  ہیں  :
                (۱)  عاقل ہونا۔  مجنوں  یاناسمجھ بچہ نے نکاح کیا تو منعقد ہی نہ ہوا۔
                (۲)  بلوغ۔  نابالغ اگر سمجھ وال ہے تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کی  اجازت پر موقوف رہے گا۔
                (۳)گواہ ہونا۔  یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں  کے سامنے ہوں  ۔ گواہ آزاد، عاقل، بالغ ہوں  اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سُنے۔ بچوں  اور پاگلوں  کی  گواہی سے نکاح نہیں  ہوسکتا، نہ غلام کی  گواہی سے اگرچہ مدبّر یامکاتب ہو۔  
                 مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت کے ساتھ ہے تو گواہوں  کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے، لہٰذا مسلمان مرد و عورت کا نکاح کافر کی  شہادت سے نہیں  ہوسکتا اور اگر کتابیہ سے مسلمان مرد کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ ذمّی کافر بھی ہو سکتے ہیں  ، اگرچہ عورت کے مذہب کے خلاف گواہوں  کا مذہب ہو، مثلاً عورت نصرانیہ ہے اور گواہ یہودی یا بالعکس. یوہیں  اگر کافر و کافرہ کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ کافر بھی ہو سکتے ہیں  اگرچہ دوسرے مذہب کے ہوں  ۔
      (4)  ایجاب و قبول دونوں  کا ایک مجلس میں  ہونا۔  تو اگر دونوں  ایک مجلس میں  موجود تھے ایک نے ایجاب کیا، دوسرا قبول سے پہلے اُٹھ کھڑا ہو یا کوئی ایسا کام شروع کر دیا، جس سے مجلس بدل جاتی ہے تو ایجاب باطل ہوگیا، اب قبول کرنا بیکار ہے پھر سے ہونا چاہیے۔  (’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱، ص۲۶۹۔)
   (5)  قبول ایجاب کے مخالف نہ ہو، مثلاً اس نے کہا ہزار روپے مہر پر تیرے نکاح میں  دی، اُس نے کہا نکاح تو قبول کیا اور مہر قبول نہیں  تو نکاح نہ ہوا۔ اور اگر نکاح قبول کیا اور مہر کی  نسبت کچھ نہ کہا تو ہزار پر نکاح ہوگیا۔   ( ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱،ص۲۶۹۔
و’’ردالمحتار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بإرسال کتاب، ج۴، ص۸۷۔ )
لڑکی  بالغہ ہے تو اُس کا راضی ہونا شرط ہے،(3) ولی کو یہ اختیارنہیں  کہ بغیر اُس کی  رضا کے نکاح کر دے۔
 (7)  کسی زمانۂ آئندہ کی  طرف نسبت نہ کی  ہو، نہ کسی شرط نامعلوم پر معلق کیا ہو، مثلاً میں  نے تجھ سے آئندہ روز میں  نکاح کیا یا میں  نے نکاح کیا اگر زید آئے ان صورتوں  میں  نکاح نہ ہوا۔  جب کہ صریح الفاظ )نکاح میں  استعمال کیے جائیں  تو عاقدین اور گواہوں  کا ان کے معنی جاننا شرط  نہیں۔ (الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح،ج۴،ص۸۸۔)
(8)  نکاح کی  اضافت  کُل کی  طرف ہو یا اُن اعضا کی  طرف جن کو بول کرکُل مراد لیتے ہیں  تو اگر یہ کہا، فلاں  کے ہاتھ یاپاؤں  یا نصف سے نکاح کیا صحیح نہ ہوا۔  (الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح،الباب الأول في تفسیرہ شرعًاوصفۃ۔۔۔إلخ،ج۱،)

 ۔نکاح کا خطبہ :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنَعُوْذُ بِاللہ مِنْ شُرُوْرِاَنْفُسِنَاوَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّہْدِہِ اللہ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدَُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ اَعُوْذُ بِاللہ  مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ  اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ { یٰۤاَیُّهَا  النَّاسُ   اتَّقُوْا  رَبَّكُمُ  الَّذِیْ  خَلَقَكُمْ  مِّنْ  نَّفْسٍ  وَّاحِدَةٍ  وَّ  خَلَقَ  مِنْهَا  زَوْجَهَا  وَ  بَثَّ  مِنْهُمَا  رِجَالًا  كَثِیْرًا  وَّ  نِسَآءًۚ-وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  الَّذِیْ  تَسَآءَلُوْنَ  بِهٖ  وَ  الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  كَانَ  عَلَیْكُمْ  رَقِیْبًا(۱) }(پ۴،النساء:۱) 
یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲) }(پ۴،آل عمران: ۱۰۲)۔ {یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰)یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)}(پ۲۲،الأحزاب:۷۰۔۷۱) ۔۱۲ منہ
(الفاظ نکاح)
  الفاظِ نکاح دو قسم ہیں  :
                ایک صریح (یعنی ایسا لفظ جس سے نکاح مراد ہونا ظاہر ہو۔  (، یہ صرف دو لفظ ہیں  ۔ نکاح و تزوّج، باقی کنایہ(یعنی ایسا لفظ جس سے نکاح مراد ہوناتو ظاہر نہیں  مگرقرینہ سے معنیٔ نکاح سمجھا جاتا ہو۔)ہیں  ۔ الفاظ کنایہ میں  اُن لفظوں  سے نکاح ہوسکتا ہے جن سے خود شے ملک میں  آجاتی ہے، مثلاً ہبہ، تملیک، صدقہ، عطیہ، بیع، شرا  مگر ان میں  قرینہ کی  ضرورت ہے کہ گواہ اُسے نکاح سمجھیں   (’’الدرالمختار‘‘،کتاب النکاح، مطلب: التزوج بارسال کتاب، ج۴، ص۸۹۔۹۱۔و’’الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب النکاح، الباب الثاني فیما ینعقد بہ النکاح وما لاینعقد، ج۱، ص۲۷۰، ۲۷۱۔)
نکاح کرنے کا شرعی حکم: 
              نکاح کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ اِعتدال کی حالت میں   یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور نا مرد بھی نہ ہو، مہر اور نان نفقہ پر قدرت رکھتا ہو تو نکاح سنّتِ مُؤکَّدَہ ہے۔ زِنا میں   پڑنے کا اندیشہ ہے اور زَوْجِیَّت کے حقوق پورے کرنے پر قادِر ہے تو واجب اور اگر زِنا میں   پڑنے کا یقین ہو تو نکاح کرنا فرض ہے، زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو نکاح مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو حرام ہے۔( بہارِ شریعت، حصہ ہفتم، نکاح کا بیان،  ۲  /  ۴ - ۵، ملخصاً ) 
  
{ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ : اگر وہ فقیر ہوں   گے۔}  ارشاد فرمایا کہ اگر نکاح کرنے والے فقیر ہوں   گے تو    اللہ  تعالیٰ انہیں   اپنے فضل سے غنی کردے گا۔ اس غَناء کے بارے میں   مفسرین کے چند قول ہیں : 
( 1 )…  اس غناء سے مراد قَناعَت ہے۔ 
( 2 )… اس سے مرادکفایت ہے کہ ایک کا کھانا دو کے لئے کافی ہوجائے جیسا کہ حضرت جابر بن  عبد اللہ  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی    عَنْہُ  سے روایت ہے،  رسولُ   اللہ  صَلَّی   اللہ   تَعَالٰی   عَلَیْہِ   وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’ایک شخص کا کھانا دو کو کافی ہے۔‘‘ (  مسلم، کتاب الاشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ فی الطعام القلیل۔۔۔ الخ،  ص ۱۱۴۰ ، الحدیث:  ۱۷۹(۲۰۵۹) ) 
( 3 )…  ا س غناء سے شوہر اور بیوی کے دو رِزْقوں   کا جمع ہوجانا یا نکاح کی برکت سے فراخی حاصل ہونا مراد ہے۔ (  مدارک، النور، تحت الآیۃ :  ۳۲ ، ص ۷۷۹ ،  خازن، النور، تحت الآیۃ :  ۳۲ ،  ۳ / ۳۵۰ ،  ملتقطاً ) 
تنگدستی دُورہونے اور فراخ دستی حاصل ہونے کا ذریعہ: 
              اس آیت سے معلوم ہو اکہ نکاح کی برکت سے تنگدستی دور ہوجاتی اور فراخ دستی حاصل ہو تی ہے۔ کثیر احادیث  میں   بھی اس چیز کو بیان کیاگیا ہے، ترغیب کے لئے  6 احادیث درج ذیل ہیں ۔ 
( 1 )…  حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی   عَنْہُ  سے روایت ہے،حضورِ اقدس   صَلَّی   اللہ   تَعَالٰی   عَلَیْہِ   وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشادفرمایا:  ’’تین شخصوں   کی    اللہ  تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ ( 1 )  اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کی راہ میں   جہاد کرنے والا۔ ( 2 ) مُکاتَب  (غلام)  کہ  (کِتابَت کی رقم)  ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ( 3 ) پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا۔‘‘ (  ترمذی، کتاب فضاءل الجہاد، باب ما جاء فی المجاہد والناکح والمکاتب۔۔۔ الخ ،  ۳ / ۲۴۷ ، الحدیث:  ۱۶۶۱ ) 
( 2 )… حضرت  عبد اللہ  بن عباس  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی   عَنْہُمَا  سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت   صَلَّی   اللہ   تَعَالٰی   عَلَیْہِ   وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا: ’’تم نکاح کے ذریعے رِزْق تلاش کرو۔‘‘ (  مسند الفردوس، باب الالف ،  ۱ / ۸۸ ، الحدیث:  ۲۸۲ ) 
( 3 )  …حضرت عروہ  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی   عَنْہُ   سے روایت ہے،حضورِ انور   صَلَّی   اللہ   تَعَالٰی   عَلَیْہِ   وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا: ’’تم  عورتوں   سے نکاح کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس  (  اللہ  تعالیٰ کی طرف سے رِزْق اور)  مال لائیں   گی۔‘‘ (  مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب النکاح، فی التزویج من کان یأمر بہ ویحثّ علیہ ،  ۳ / ۲۷۱ ، الحدیث:  ۱۰ ) 
( 4 )  …حضرت جابر بن  عبد اللہ  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی   عَنْہُ   فرماتے ہیں   کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت   صَلَّی   اللہ   تَعَالٰی   عَلَیْہِ   وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   میں   حاضر ہو کر اپنی تنگدستی کی شکایت کی تو آپ   صَلَّی   اللہ   تَعَالٰی   عَلَیْہِ   وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے اسے نکاح کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ (  تاریخ بغداد، باب محمد ،  ۳۰۷- محمد بن احمد بن نصر   ابو جعفر۔۔۔ الخ ،  ۱ / ۳۸۲ ) 
  (  5 ) … حضرت ابوبکر صدیق  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی   عَنْہُ  نے فرمایا:    اللہ  عَزَّوَجَلَّ   نے جو تمہیں   نکاح کا حکم فرمایا، تم اس کی اِطاعت کرو اس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پورا فرمائے گا۔     اللہ  تعالیٰ نے فرمایا:  ’’اگر وہ فقیر ہوں   گے تو    اللہ  عَزَّوَجَلَّ  اُنہیں   اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔‘‘ (  تفسیر ابن ابی حاتم، النور، تحت الآیۃ :  ۳۲ ،  ۸ / ۲۵۸۲ ) 
  (  6 )… حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ   اللہ   تَعَالٰی   عَنْہُ  فرماتے ہیں : ’’مجھے ا س شخص پر تعجب ہوتا ہے جو نکاح کے بغیر غنی ہونے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ     اللہ  تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ اگر وہ فقیر ہوں   گے تو    اللہ  عَزَّوَجَلَّ   انہیں   اپنے فضل سے غنی  کردے گا۔‘‘ ( خازن، النور، تحت الآیۃ :  ۳۲ ،  ۳ / ۳۵۰ ) 
              نکاح کی وجہ سے غنی ہونے کی ایک نفسیاتی وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اکیلا آدمی عموماً بے فکر ہوتا ہے لیکن جب شادی ہوجاتی ہے تو احساسِ ذمہ داری پیدا ہوجاتی ہے تو آدمی تَن دہی سے کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں   اس کیلئے رزق کے دروازے ُکھل جاتے ہیں   اور اس بات کا ہزاروں   لوگوں   میں   مشاہدہ بھی ہے کہ شادی سے پہلے بے فکر وبے روزگاراور دوستوں   کے ساتھ وقت ضائع کررہے ہوتے ہیں   لیکن شادی کے بعد کام بھی شروع کردیتے ہیں   اور فضولیات سے بھی بچنا شروع کردیتے ہیں ۔