یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

جمعہ کے فضائل احکام و مسائل




تحریر عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

جمعہ کے فضائل احکام و مسائل

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(سورہ الجمعہ آیت 9)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
 اس آیت سے نمازِجمعہ کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں  ۔یہاں  اس آیت سے متعلق تین باتیں  ملاحظہ ہوں :
(1)… اس آیت میں  اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو خطبہ سے مُتَّصِل ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں  اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے۔
(2)…دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں  ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کیلئے تیاری شروع کردو اورذِکْرُ اللّٰہ سے جمہور علماء کے نزدیک خطبہ مراد ہے۔
(3)… اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیّت،خرید و فروخت وغیرہ دُنْیَوی مَشاغل کی حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا ۔( خزائن العرفان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۲۵، ملخصاً)

جمعہ کی وجہِ تَسمِیَہ :

            عربی زبان میں  اس دن کا نام عروبہ تھا بعد میں  جمعہ رکھا گیا اورسب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں  مختلف اَقوال ہیں ، ان میں  سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے جماعتوں  کا اجتماع ہوتا ہے ۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۵)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ َکا پہلا جمعہ:
            سیرت بیان کرنے والے علماء کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں  قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں  نے مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہاں  جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اَصحاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۴ / ۲۶۶)

روزِ جمعہ کے8 فضائل :

کثیر اَحادیث میں  جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے 8 اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں  حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کیے گئے ، اسی میں  جنت میں  داخل کیے گئے اور اسی میں  انہیں  جنت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸(۸۵۴))
(2)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں  فرشتے حاضر ہوتے ہیں  اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں  نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک! اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،  ۲ / ۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷)
(3)…حضرت ابو لبابہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جمعہ کا دن تمام دنوں  کا سردار ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس میں  پانچ خصلتیں  ہیں :(1) اللّٰہ تعالیٰ نے اسی میں  حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پیدا کیا۔ (2) اسی میں  انہیں  زمین پر اُتارا۔ (3) اسی میں  انہیں  وفات دی۔ (4)اور اس میں  ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے اللّٰہ تعالیٰ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ (5)اور اسی دن میں  قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین ،ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں  کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ،  ۲ / ۸، الحدیث: ۱۰۸۴)
(4)…حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں  مرے گا،اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں  کی مُہر ہوگی۔( حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن المنکدر،  ۳ / ۱۸۱، الحدیث: ۳۶۲۹)
5۔۔۔  صحیحین میں  ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ہم پچھلے ہیں  یعنی دنیامیں  آنے کے لحاظ سے اور قیامت کے دن پہلے سوا اس کے کہ انھیں  ہم سے پہلے کتاب ملی اور ہمیں  ان کے بعد یہی جمعہ وہ دن ہے کہ ان پر فرض کیا گیا یعنی یہ کہ اس کی تعظیم کریں  وہ اس سے خلاف ہو گئے اور ہم کو اﷲ تعالیٰ نے بتا دیا دوسرے لوگ ہمارے تابع ہیں ، یہود نے دوسرے دن کو وہ دن مقرر کیا یعنی ہفتہ کو اور نصاریٰ نے تیسرے دن کو یعنی اتوار کو ( ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۸۷۶، ج۱، ص۳۰۳) اور مسلم کی دوسری روایت انھیں  سے اور حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ ہے، فرماتے ہیں : ’’ہم اہل دنیا سے پیچھے ہیں  اور قیامت کے دن پہلے کہ تمام مخلوق سے پہلے ہمارے لیے فیصلہ ہو جائے گا۔‘‘(’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذھ الأمۃ لیوم الجمعۃ، الحدیث: ۸۵۶، ص۴۲۶۔)
 6۔۔۔۔  مسلم و ابو داود و ترمذی و نسائی ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’بہتر دن کہ آفتاب نے اس پر طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں  آدم علیہ الصّلوٰۃ والسلام پیدا کیے گئے اور اسی میں  جنت میں  داخل کیے گئے اور اسی میں  جنت سے اترنے کا انھیں  حکم ہوا۔ اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔‘‘  (’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۸۔(۸۵۴)، ص۴۲۵۔
)
7۔۔۔۔  ابو داود و نسائی و ابن ماجہ و بیہقی اَوس بن اَوس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم: ’’تمھارے افضل دنوں  سے جمعہ کا دن ہے، اسی میں  آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اور اسی میں  انتقال کیا اور اسی میں  نفخہ ہے (دوسری بار صور پھونکا جانا) اور اسی میں  صعقہ ہے (پہلی بار صور پھونکا جانا)، اس دن میں  مجھ پر دُرود کی کثر ت کرو کہ تمہارا دُرود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ لوگوں  نے عرض کی، یا رسول اﷲ ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ! اس وقت حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ہمارا دُرود کیونکر پیش کیا جائے گا، جب حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) انتقال فرما چکے ہوں  گے؟ فرمایا: کہ اﷲ تعالیٰ نے زمین پر انبیا کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘  (’’سنن النسائي‘‘، کتاب الجمعۃ، باب اکثار الصلاۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۳۷۱،    ص۲۳۷۔
) اور ابن ماجہ کی روایت میں  ہے، کہ فرماتے ہیں : ’’جمعہ کے دن مجھ پر دُرود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں  فرشتے حاضر ہوتے ہیں  اور مجھ پر جو دُرود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔ ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں : میں  نے عرض کی اور موت کے بعد؟ فرمایا: بے شک! اﷲ (عزوجل) نے زمین پر انبیا کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اﷲ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔‘‘  (’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب ماجاء في الجنائز، باب ذکر وفاتہ و دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱۔)
8۔۔۔ ابن ماجہ ابو لبابہ بن عبدالمنذر اور احمد سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جمعہ کا دن تمام دنوں  کا سردار ہے اور اﷲ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اﷲ کے نزدیک عیداضحی و  عید الفطر سے بڑا ہے، اس میں  پانچ خصلتیں  ہیں ۔
            (۱)  ﷲ تعالیٰ نے اسی میں  آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔
            (۲)  اور اسی میں  زمین پر انھیں  اتارا۔
            (۳)  اور اسی میں  انھیں  وفات دی۔      
             (۴)  اور اس میں  ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال        کرے وہ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔
            (۵)  اور اسی دن میں  قیامت قائم ہوگی، کوئی فرشتۂ مقرب و آسمان و زمین اور ہوا اور پہاڑ اور دریا ایسا نہیں  کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔‘‘  (’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا، باب في فضل الجمعۃ، الحدیث: ۱۰۸۴، ج۲، ص۸۔)
 جمعہ کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی:
            جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں  اللّٰہ تعالیٰ خاص طور پر دعا قبول فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث  میں  بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’اس میں  ایک ساعت ہے،جو مسلمان بندہ اسے پائے اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما دی جائے گی ،اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ۱ / ۳۲۱، الحدیث: ۹۳۵)
             یاد رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں  روایتیں  بہت ہیں  ،ان میں  سے دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، ۱ / ۷۵۴، ملخصاً)
کثیر اَحادیث میں  جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
1۔۔۔ بخاری و مسلم ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جمعہ میں  ایک ایسی ساعت ہے کہ مسلمان بندہ اگر اسے پالے اور اس وقت اﷲ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو وہ اسے دے گا۔‘‘ اور مسلم کی روایت میں  یہ بھی ہے کہ’’ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔‘‘  (صحیح مسلم‘‘، کتاب الجمعۃ، باب في الساعۃ التي في یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۵۔(۸۵۲)، ص۴۲۴۔    و ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، تحت الحدیث: ۱۳۵۷، ج۳، ص۴۴۵)
)  رہا یہ کہ وہ کون سا وقت ہے اس میں  روایتیں  بہت ہیں  ان میں  دو قوی ہیں  ایک یہ کہ امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے ختم نماز تک ہے۔ (’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الجمعۃ، باب في الساعۃ التی في یوم الجمعۃ، الحدیث: ۸۵۳، ص۴۲۴۔)  اس حدیث کو مسلم ابو بردہ بن ابی موسیٰ سے وہ اپنے والد سے وہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ اور دوسری یہ کہ ’’وہ جمعہ کی پچھلی ساعت ہے۔‘‘ امام مالک و ابو داود و ترمذی و نسائی و احمد ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، وہ کہتے ہیں : میں  کوہِ طور کی طرف گیا اور کعب احبار سے ملا ان کے پاس بیٹھا، انہوں  نے مجھے تورات کی روایتیں  سنائیں  اور میں  نے ان سے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیثیں  بیان کیں ، ان میں  ایک حدیث یہ بھی تھی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہتر دن کہ آفتاب نے اس پر طلوع کیا جمعہ کا دن ہے، اسی میں  آدم   علیہ السلام پیدا کیے گئے اور اسی میں  انھیں  اترنے کا حکم ہوا اور اسی میں  ان کی توبہ قبول ہوئی اور اسی میں  ان کا انتقال ہوا اور اسی میں  قیامت قائم ہوگی اور کوئی جانور ایسا نہیں  کہ جمعہ کے دن صبح کے وقت آفتاب نکلنے تک قیامت کے ڈر سے چیختا نہ ہو سِوا آدمی اور جن کے اور اس میں  ایک ایسا وقت ہے کہ مسلمان بندہ نماز پڑھنے میں  اسے پا لے تو اﷲ تعالیٰ سے جس شے کا سوال کرے وہ اسے دے گا۔ کعب نے کہا سال میں  ایسا ایک دن ہے؟ میں  نے کہا بلکہ ہر جمعہ میں  ہے، کعب نے تورات پڑھ کر کہا رسول اﷲ  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں  پھر میں  عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملا اور کعب احبار کی مجلس اور جمعہ کے بارے میں  جو حدیث بیان کی تھی اس کا ذکر کیا اور یہ کہ کعب نے کہا تھا، یہ ہر سال میں  ایک دن ہے، عبد اﷲ بن سلام نے کہا کعب نے غلط کہا، میں  نے کہا پھر کعب نے تورات پڑھ کر کہا بلکہ وہ ساعت ہر جمعہ میں  ہے، کہا کعب نے سچ کہا، پھر عبدﷲ بن سلام نے کہا تمھیں  معلوم ہے یہ کون سی ساعت ہے؟ میں  نے کہا مجھے بتاؤ اور بُخل نہ کرو، کہا جمعہ کے دن کی پچھلی ساعت ہے، میں  نے کہا پچھلی ساعت کیسے ہو سکتی ہے حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے تو فرمایا ہے مسلمان بندہ نماز پڑھتے میں  اسے پائے اور وہ نماز کا وقت نہیں ، عبدﷲ بن سلام نے کہا، کیا حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے یہ نہیں  فرمایا ہے کہ جو کسی مجلس میں  انتظار نماز میں  بیٹھے وہ نماز میں  ہے میں  نے کہا ہاں ، فرمایا تو ہے کہا تو وہ یہی ہے یعنی نماز پڑھنے سے نماز کا انتظار مراد ہے۔ ( ’’الموطأ‘‘ لإمام مالک، کتاب الجمعۃ، باب ماجاء في الساعۃ التی في یوم الجمعۃ، الحدیث: ۲۴۶، ج۱، ص۱۱۵)
2۔۔۔  ترمذی انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جمعہ کے دن جس ساعت کی خواہش کی جاتی ہے، اسے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔‘‘  (’’جامع الترمذي‘‘، أبواب الجمعۃ، باب ماجاء في الساعۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۴۸۹، ج۲، ص۳۰۔)
3۔۔۔  طبرانی اوسط میں  بسندِ حسن انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’اﷲ تبارک و تعالیٰ کسی مسلمان کو جمعہ کے دن بے مغفرت کیے نہ چھوڑے گا۔‘‘  (’’المعجم الأوسط‘‘، باب العین، الحدیث: ۴۸۱۷، ج۳، ص۳۵۱۔)
4۔۔۔  ابو یعلیٰ انھیں سے راوی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جمعہ کے دن اور رات میں  چوبیس گھنٹے ہیں ، کوئی گھنٹاایسا نہیں  جس میں  اﷲ تعالیٰ جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو جن پر جہنم واجب ہوگیا تھا۔‘‘  (’’مسند أبي یعلی‘‘، مسند انس بن مالک، الحدیث: ۳۴۲۱، ۳۴۷۱، ج۳، ص۲۱۹، ۲۳۵۔)

( جمعہ کے دن یا رات میں  مرنے کے فضائل)

کثیر اَحادیث میں  جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے 6 اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
1۔۔۔  احمد و ترمذی عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں  مرے گا، اﷲ تعالیٰ اسے فتنۂ قبر سے بچالے گا۔‘‘  ( ’’جامع الترمذي‘‘، أبواب الجنائز، باب ماجاء فیمن یموت یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۰۷۶، ج۲، ص۳۳۹۔)
2۔۔۔  ابو نعیم نے جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں  مرے گا، عذاب قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں  کی مُہر ہوگی۔‘‘  …  ’’حلیۃ الأولیاء‘‘، رقم: ۳۶۲۹، ج۳، ص۱۸۱۔
3۔۔۔  حمید نے ترغیب میں  ایاس بن بکیر سے روایت کی، کہ فرماتے ہیں : ’’جو جمعہ کے دن مرے گا، اس کے لیے شہید کا اجر لکھا جائے گا اور فتنۂ قبر سے بچا لیا جائے گا۔‘‘  (’’شرح الصدور‘‘، للسیوطی، باب من لا یسئل فی القبر،  ص۱۵۱۔)
 4۔۔۔  عطا سے مروی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جو مسلمان مرد یا مسلمان عورت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں  مرے، عذاب قبر اور فتنۂ قبر سے بچا لیا جائے گا اور خدا سے اس حال میں  ملے گا کہ اس پر کچھ حساب نہ ہوگا اور اس کے ساتھ گواہ ہوں  گے کہ اس کے لیے گواہی دیں  گے یا مُہر ہوگی۔‘‘  ( شرح الصدور‘‘، للسیوطی، باب من لا یسئل فی القبر،  ص۱۵۱۔)
  5۔۔۔۔۔  بیہقی کی روایت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جمعہ کی رات روشن رات ہے اور جمعہ کا دن چمکدار دن۔‘‘  (’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، الحدیث: ۱۳۶۹، ج۱، ص۳۹۳۔)
6۔۔۔  ترمذی ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ انہوں  نے یہ آیت پڑھی:
{ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا١ؕ  } (پ۶، المآئدۃ: ۳۔)
آج میں  نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
            ان کی خدمت میں  ایک یہودی حاضر تھا، اس نے کہا یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بناتے، ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے فرمایا: یہ آیت دو عیدوں  کے دن اُتری جمعہ اور عرفہ کے دن یعنی ہمیں  اس دن کو عید بنانے کی ضرورت نہیں  کہ اﷲ عزوجل نے جس دن یہ آیت اتاری اس دن دوہری عید تھی کہ جمعہ و عرفہ یہ دونوں  دن مسلمانوں  کے عید کے ہیں  اور اس دن یہ دونوں  جمع تھے کہ جمعہ کا دن تھا اور نویں  ذی الحجہ۔ (  ’’جامع الترمذي‘‘، أبواب تفیسر القرآن، باب ومن سورۃ المائدۃ، 

 نمازِ جمعہ کےفضائل:

            اَحادیث میں  جمعہ کی نماز کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،یہاں  ان میں  سے چند فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے ان گناہوں  کی مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں  اور(ان کے علاوہ)مزید تین دن(کے گناہ بخش دئیے جائیں  گے ) اور جس نے کنکری چھوئی اس نے لَغْوْ کیا۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص۴۲۷، الحدیث: ۲۷(۸۵۷)) یعنی خطبہ سننے کی حالت میں  اتنا کام بھی لَغْوْ میں  داخل ہے کہ کنکری پڑی ہو اُسے ہٹا دے۔
(2)…حضرت ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزیں  جو ایک دن میں  کرے گا، اللّٰہ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا۔ (1) جو مریض کو پوچھنے جائے ،(2) جنازے میں  حاضر ہو ، (3) روزہ رکھے ،(4) جمعہ کو جائے ،(5)اور غلام آزاد کرے۔( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ۳ / ۱۹۱، الجزء الرابع، الحدیث: ۲۷۶۰)
3۔۔۔  طبرانی کی روایت ابو مالک اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جمعہ کفّارہ ہے ان گناہوں  کے لیے جو اس جمعہ اور اس کے بعد والے جمعہ کے درمیان ہیں  اور تین دن زیادہ اور یہ اس وجہ سے کہ اﷲ عزوجل فرماتا ہے: ’’جو ایک نیکی کرے، اس کے لیے دس مثل ہے۔‘‘  (’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: ۳۴۵۹، ج۳، ص۲۹۸۔)
 4۔۔۔   ابن حبان اپنی صحیح میں  ابو سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’پانچ چیزیں  جو ایک دن میں  کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا۔
            (۱)  جو مریض کو پوچھنے جائے اور
            (۲)  جنازے میں  حاضر ہو اور
            (۳)  روزہ رکھے اور
            (۴)  جمعہ کو جائے اور
                (۵)  غلام آزاد کرے۔‘‘  
(’’الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان‘‘، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، الحدیث: ۲۷۶۰، ج۴، ص۱۹۱۔)
5۔۔۔۔:  ترمذی بافادۂ تصحیح و تحسین راوی، کہ یزید بن ابی مریم کہتے ہیں : میں  جمعہ کو جاتا تھا، عبایہ بن رفاعہ    بن رافع ملے، انہوں  نے کہا: تمھیں  بشارت ہو کہ تمھارے یہ قدم اﷲ کی راہ میں  ہیں ، میں  نے ابو عبس کو کہتے سُنا کہ رسول اﷲ   صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے قدم اﷲ (عزوجل) کی راہ میں  گرد آلود ہوں  وہ آگ پر حرام ہیں ۔‘‘  (’’جامع الترمذي‘‘، أبواب فضائل الجھاد، باب ماجاء في فضل من اغبرت قدماہ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۱۶۳۸، ج۳، ص۲۳۵۔) اور بخاری کی روایت میں  یوں  ہے، کہ عبایہ کہتے ہیں : میں  جمعہ کو جا رہا تھا، ابو عبس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ملے اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ارشاد سنایا۔ (’’صحیح البخار ي‘‘، کتاب الجمعۃ، باب المشي إلی الجمعۃ، الحدیث: ۹۰۷، ج۱، ص۳۱۳۔)۔

 جمعہ کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں

            اَحادیث میں  جہاں  نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں  وہیں  جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وعیدیں  بھی بیان کی گئی ہیں  چنانچہ یہاں  اس کی دووعیدیں  ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت عبد اللّٰہ بن عمر  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں  گے یا اللّٰہ تعالیٰ ان کے دلوں  پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں  سے ہو جائیں  گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک  الجمعۃ، ص۴۳۰، الحدیث: ۴۰(۸۶۵))
(2)…حضرت اسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑے وہ منافقین میں  لکھ دیاگیا۔( معجم الکبیر، مسند الزبیر بن العوام، باب ما جاء فی المرأۃ السوئ۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۰، الحدیث: ۴۲۲)
(3)...  احمد و ابو داود و ابن ماجہ سمرہ بن جندب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’جو بغیر عذر جمعہ چھوڑے، ایک دینار صدقہ دے اور اگر نہ پائے تو آدھا دینار اور یہ دینار تصدق کرنا شاید اس لیے ہو کہ قبول توبہ کے لیے معین ہو ورنہ حقیقۃً تو توبہ کرنا فرض ہے۔‘‘  (’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب کفارۃ من ترکھا، الحدیث: ۱۰۵۳، ج۱، ص۳۹۳۔)
  (4)...  صحیح مسلم شریف میں  ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’میں  نے قصد کیا کہ ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں  اور جو لوگ جمعہ سے پیچھے رہ گئے، ان کے گھروں  کو جلا دوں ۔‘‘  (’’صحیح مسلم‘‘، کتاب المساجد۔۔۔ إلخ، باب فضل صلاۃ الجمعۃ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۶۵۲، ص۳۲۷۔)
 (5)  ابن ماجہ نے جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطبہ فرمایا اور فرمایا: ’’اے لوگو! مرنے سے پہلے اﷲ (عزوجل) کی طرف توبہ کرو اور مشغول ہونے سے پہلے نیک کاموں  کی طرف سبقت کرواور یادِ خدا کی کثرت اور ظاہر و پوشیدہ صدقہ کی کثرت سے جو تعلقات تمھارے اور تمھارے رب (عزوجل) کے درمیان ہیں  ملاؤ۔ ایسا کروگے تو تمھیں  روزی دی جائے گی اور تمھاری مدد کی جائے گی اور تمھاری شکستگی دور فرمائی جائے گی اور جان لو کہ اس جگہ اس دن اس سال میں  قیامت تک کے لیے اﷲ (عزوجل) نے تم پر جمعہ فرض کیا، جو شخص میری حیات میں  یا میرے بعد ہلکا جان کر اور بطور انکار جمعہ چھوڑے اور اس کے لیے کوئی امام یعنی حاکم اسلام ہو عادل یا ظالم تو اﷲ تعالیٰ نہ اس کی پراگندگی کو جمع فرمائے گا، نہ اس کے کام میں  برکت دے گا، آگاہ اس کے لیے نہ نماز ہے، نہ زکوٰۃ، نہ حج، نہ روزہ، نہ نیکی جب تک توبہ نہ کرے اور جو توبہ کرے اﷲ (عزوجل) اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔‘‘  (سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب في فرض الجمعۃ،   الحدیث: ۱۰۸۱، ج۲، ص۵) 
  (6)...  دارقطنی انھیں  سے راوی، کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جو اﷲ (عزوجل) اور پچھلے دن پر ایمان لاتا ہے اس پر جمعہ کے دن (نماز) جمعہ فرض ہے مگر مریض یا مسافر یا عورت یا بچہ یاغلام پر اور جو شخص کھیل یا تجارت میں  مشغول رہا تو اﷲ (عزوجل) اس سے بے پرواہ ہے اور اﷲ (عزوجل) غنی حمید ہے۔‘‘(  ’’سنن الدار قطني‘‘، کتاب الجمعۃ، باب من تجب علیہ الجمعۃ، الحدیث: ۱۵۶۰، ج۲، ص۳۔)

جمعہ کے دن نہانے اور خوشبو لگانے کا بیان

         (1)  صحیح بخاری میں  سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت کی استطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں  جو خوشبو ہو مَلے پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں  میں  جدائی نہ کرے یعنی دوشخص بیٹھے ہوئے ہوں  انھیں  ہٹا کر بیچ میں  نہ بیٹھے اور جو نماز اس کے لیے لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے، اس کے لیے ان گناہوں  کی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں  مغفرت ہو جائے گی۔‘‘   ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجمعۃ، باب الدھن للجمعۃ، الحدیث: ۸۸۳، ج۱، ص۳۰۶۔
  اور اسی کے قریب قریب ابوسعید خدری و ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے بھی متعدد طرق سے روایتیں  آئیں ۔
     (2) ۔         احمد ابو داود و ترمذی بافادۂ تحسین و نسائی و ابن ماجہ و ابن خزیمہ و ابن حبان و حاکم بافادۂ تصحیح اَوس بن اَوس اور طبرانی اوسط میں  ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے راوی، کہ فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جو نہلائے اور نہائے اور اوّل وقت آئے اور شروع خطبہ میں  شریک ہو اور چل کر آئے سواری پر نہ آئے اور امام سے قریب ہو اور کان لگا کر خطبہ سُنے اور لغو کام نہ کرے، اس کے لیے ہر قدم کے بدلے سال بھر کا عمل ہے، ایک سال کے دنوں  کے روزے اور راتوں  کے قیام کا اسکے لیے اجر ہے۔‘‘  (  ’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، حدیث أوس بن أبي أوس الثقفی، الحدیث: ۱۶۱۷۳، ج۵، ص۴۶۵)  اور اسی کے مثل دیگر صحابۂ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے بھی روایتیں  ہیں ۔
(3) و مسلم ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’ہرمسلمان پر سات دن میں  ایک دن غسل ہے کہ اس دن میں  سر دھوئے اور بدن۔‘‘  (’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ غسل۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۸۹۷، ج۱، ص۳۱۰۔)
 (4)  احمد و ابو داود و ترمذی و نسائی و دارمی سمرہ بن جندب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، فبہا اور اچھا ہے اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے۔‘‘  ) جامع الترمذي‘‘، أبواب الجمعۃ، باب ماجاء في الوضوء یوم الجمعۃ، الحدیث: ۴۹۷، ج۲، ص۳۶۔
(5) داود عکرمہ سے راوی، کہ عراق سے کچھ لوگ آئے، انہوں  نے ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہما سے سوال کیا کہ جمعہ کے دن آپ غسل واجب جانتے ہیں ؟ فرمایا نہ، ہاں  یہ زیادہ طہارت ہے اور جو نہائے اس کے لیے بہتر ہے اور جو غسل نہ کرے تو اس پر واجب نہیں ۔‘‘  (…  ’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الطھارۃ، باب الرخصۃ في ترک الغسل یوم الجمعۃ، الحدیث: ۳۵۳، ج۱، ص۱۶۰۔)
 (6)  ابن ماجہ بسند حسن ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے راوی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’اس دن کو اﷲ (عزوجل) نے مسلمانوں  کے لیے عید کیا تو جو جمعہ کو آئے وہ نہائے اور اگر خوشبو ہو تو لگائے۔‘‘  (  ’’سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب اقامۃ الصلوات۔۔۔ إلخ، باب ماجاء في الزینۃ یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۰۹۸، ج۲، ص۱۶)
  (7)  احمد و ترمذی بسند حسن براء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضور(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں : ’’مسلمان پر حق ہے کہ جمعہ کے دن نہائے اور گھر میں  جو خوشبو ہو لگائے اور خوشبو نہ پائے تو پانی  (’’جامع الترمذي‘‘، أبواب الجمعۃ، باب ماجاء في السواک۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۵۲۸، ج۲، ص۵۸۔
)  یعنی نہانا بجائے خوشبو ہے۔‘‘
 (8)  طبرانی کبیرو اوسط میں  صدیق اکبر و عمران بن حصین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جو جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں  مٹا دی جاتی ہیں  اور جب چلنا شروع کیا تو ہر قدم پر بیس نیکیاں  لکھی جاتی ہیں ۔‘‘  (’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: ۲۹۲، ج۱۸، ص۱۳۹۔)
  اور دوسری روایت میں  ہے، ’’ہر قدم پر بیس سال کا عمل لکھا جاتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہو تو اسے دو سو برس کے عمل کا اجر ملتا ہے۔‘‘  (’’المعجم الأوسط‘‘، باب الجیم، الحدیث: ۳۳۹۷، ج۲، ص۳۱۴۔)
(9)  طبرانی کبیر میں  بروایت ثقاث ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جمعہ کا غسل بال کی جڑوں  سے خطائیں  کھینچ لیتا ہے۔‘‘  (’’المعجم الکبیر‘‘، الحدیث: ۷۹۹۶، ج۸، ص۲۵۶۔)

جمعہ کے لیے اوّل جانے کا ثواب
 اور گردن پھلانگنے کی ممانعت

  (1)  بخاری و مسلم و ابو داود و ترمذی و مالک و نسائی و ابن ماجہ ابوہریرہ رضی للہ تعالیٰ عنہ سے راوی، فرماتے ہیں  صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، جیسے جنابت کا غسل ہے پھر پہلی ساعت میں  جائے تو گویا اس نے اونٹ کی قربانی کی اور جو دوسری ساعت میں  گیا اس نے گائے کی قربانی کی اور جو تیسری ساعت میں  گیا اس نے سینگ والے مینڈھے کی قربانی کی اور جو چوتھی ساعت میں  گیا گویا اس نے مرغی نیک کام میں  خرچ کی اور جو پانچویں  ساعت میں  گیا گویا انڈا خرچ کیا، پھر جب امام خطبہ کو نکلا ملئکہ ذکر سننے حاضر ہوجاتے ہیں ۔‘‘  (’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجمعۃ، باب فضل الجمعۃ، الحدیث: ۸۸۱، ج۱، ص۳۰۵۔)
(2)  بخاری و مسلم و ابن ماجہ کی دوسری روایت انھیں  سے ہے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)فرماتے ہیں : ’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے فرشتے مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوتے ہیں  اور حاضر ہونے والے کو لکھتے ہیں  سب میں  پہلا پھر اس کے بعد والا،( اس کے بعد وہی ثواب جو اوپر کی روایت میں  مذکور ہوئے ذکر کیے) پھر امام جب خطبہ کو نکلا فرشتے اپنے دفتر لپیٹ لیتے ہیں  اور ذکر سنتے ہیں ۔‘‘  ( ’’صحیح البخاري‘‘، کتاب الجمعۃ، باب الاستماع إلی الخطبۃ یوم الجمعۃ، الحدیث: ۹۲۹، ج۱، ص۳۱۹۔)  اسی کے مثل سمرہ بن جندب و ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے بھی روایت ہے۔
  (3)  امام احمد و طبرانی کی روایت ابوامامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے، ’’جب امام خطبہ کو نکلتا ہے تو فرشتے دفتر طے کر لیتے ہیں ، کسی نے ان سے کہا، تو جو شخص امام کے نکلنے کے بعد آئے اس کا جمعہ نہ ہوا؟ کہا، ہاں  ہوا تو لیکن وہ دفتر میں  نہیں  لکھا گیا۔‘‘  (’’المسند‘‘ للإمام أحمد بن حنبل، حدیث أبي امامۃ الباھلي، الحدیث: ۲۲۳۳۱، ج۸، ص۲۹۷۔)
  (4)  ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں  کی گردنیں  پھلانگیں  اس نے جہنم کی طرف پُل بنایا۔‘‘  (’’جامع الترمذي‘‘، أبواب الجمعۃ، باب ماجاء في کراھیۃ التخطي یوم الجمعۃ، الحدیث: ۵۱۳، ج۲، ص۴۸)  اس حدیثکو ترمذی و ابن ماجہ معاذ بن انس جہنی سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں  اور ترمذی نے کہا یہ حدیث غریب ہے اور تمام اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔
   (5)  احمد و ابو داود و نسائی عبداﷲ بن بسر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ ایک شخص لوگوں  کی گردنیں  پھلانگتے ہوئے آئے اور حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)خطبہ فرما رہے تھے ارشاد فرمایا: ’’بیٹھ جا! تو نے ایذا پہنچائی۔‘‘  (  ’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب تخطي رقاب الناس یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۱۱۸، ج۱، ص۴۱۳۔(
    (6)  ابو داود عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جمعہ میں  تین قسم کے لوگ حاضر ہوتے ہیں ۔ ایک وہ کہ لغو کے ساتھ حاضر ہوا (یعنی کوئی ایسا کام کیا جس سے ثواب جاتا رہے مثلاً خطبہ کے وقت کلام کیا یا کنکریاں  چُھوئیں ) تو اس کا حصّہ جمعہ سے وہی لغو ہے اور ایک وہ شخص کہ اﷲ سے دُعا کی تُو اگر چاہے دے اور چاہے نہ دے اور ایک وہ کہ سکوت و انصات کے ساتھ حاضر ہوا اور کسی مسلمان کی نہ گردن پھلانگی نہ کسی کو ایذا دی تو جمعہ اس کے لیے کفارہ ہے، آئندہ جمعہ اور تین دن زیادہ تک۔‘‘  (’’سنن أبي داود‘‘، کتاب الصلاۃ، باب الکلام والإمام یخطب، الحدیث: ۱۱۱۳، ج۱، ص۴۱۱۔)

نمازِ جمعہ کے  متعلق  شرعی مسائل:

            یہاں  نمازِ جمعہ شرعی مسائل و احکام بیان کئے جائیں گے :
(1)…جمعہ فرضِ عین ہے اور ا س کی فرضیت ظہر سے زیادہ مُؤکَّد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، مسائل فقہیہ، ۱ / ۷۶۲)
(2)… جمعہ پڑھنے کے لئے 6شرطیں  ہیں  ،ان میں  سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو جمعہ ہو گا ہی نہیں  ،(1)جہاں  جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ شہر یا فنائِ شہر ہو۔ (2)جمعہ پڑھانے والاسلطانِ اسلام ہویا اس کا نائب ہو جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ (3)ظہر کا وقت ہو۔یعنی ظہر کے وقت میں  نماز پوری ہو جائے ،لہٰذا اگر نماز کے دوران اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا،اب ظہر کی قضا پڑھیں ۔(4) خطبہ ہونا۔(5)جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مَردوں  کا ہونا۔ (6)اذنِ عام،یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے ،کسی کو روک ٹوک نہ ہو ۔
(3)…جمعہ فرض ہونے کے لئے 11شرطیں  ہیں  ،اگر ان میں  سے ایک بھی نہ پائی گئی تو جمعہ فرض نہیں  ،لیکن اگر پڑھے گا تو ادا ہو جائے گا۔(1)شہر میں  مقیم ہونا،(2)صحت،یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں ،مریض سے مراد وہ ہے کہ جامع مسجد تک نہ جا سکتا ہو،یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں  اچھا ہو گا۔ (3)آزاد ہونا،(4)مرد ہونا،(5)عاقل ہونا، (6)بالغ ہونا،(7)آنکھوں والا ہونا،یعنی نابینا نہ ہو،(8)چلنے پر قادر ہونا،(9)قید میں  نہ ہونا(10)بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا،(11)اس قدر بارش،آندھی،اولے یا سردی نہ ہوناکہ ان سے نقصان کا صحیح خوف ہو۔