یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو"




"اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو"

تحریر عبداللہ ھاشم عطاری مدنی 03313654057

سورہ الزمر آیت 53  میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی کامل رحمت،فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(الذمر آیت 53)
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے کفر اور گناہو ں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال  نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا، بیشک    اللہ    تعالیٰ اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں  کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے۔    (   تفسیرکبیر، الزّمر،تحت الآیۃ:   ۵۳   ،    ۹    /    ۴۶۳   -   ۴۶۴   ، جلالین مع جمل، الزّمر، تحت الآیۃ:    ۵۳   ،    ۶    /    ۴۳۹   -   ۴۴۰   ، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ:    ۵۳   ، ص   ۱۰۴۳   ، ملتقطاً   ) 
  
مذکورہ آیت کے شانِ نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں،ان میں  سے ایک یہ ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس          رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا    فرماتے ہیں ’’مشرکوں کے کچھ آدمیوں نے بارہا قتل و زِنا کا اِرتکاب کیا تھا،یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ  میں     حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں     وہ باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن ہمیں یہ تو معلوم ہو جائے کہ کیا ہمارے اتنے سارے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے؟اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’ وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ   ‘‘   (   فرقان:   ۶۸   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان   : اور وہ جواللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ  نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے۔   
                  اور یہ آیت نازل ہوئی:   
’’   قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ   ‘‘   
ترجمہ کنزُالعِرفان : تم فرماؤ: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی!اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔   (   بخاری، کتاب التفسیر، باب یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم   ...    الخ،    ۳    /    ۳۱۴   ، الحدیث:    ۴۸۱۰   )   
گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں     ہونا چاہئے:      
                  اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بندے سے اگرچہ بڑے بڑے اور بے شمار گناہ صادر ہوئے ہوں لیکن اسے  اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں     ہونا چاہئے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہا وسیع ہے اور ا س کی بارگاہ میں  توبہ کی قبولیت کا دروازہ تب تک کھلا ہے جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں پہنچ جاتا ،اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں  سے  سچی توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت  سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔    اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی تو کیا بات ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ       سے روایت ہے،نبی اکرم   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ       نے فرمایا: ’’   اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے انسان !جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں     تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان!اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ،پھر تو بخشش مانگے تو میں     بخش دوں گا مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تمہیں  اس کے برابر بخش دوں  گا۔    (   ترمذی، کتاب الدّعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار   ...    الخ،    ۵    /    ۳۱۸   ، الحدیث:    ۳۵۵۱   )   
                  اس آیت کا مفہوم مزید وضاحت سے سمجھنے کیلئے امام غزالی   رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ فرمائیں : جوشخص سرتا پا گناہوں میں     ڈوبا ہوا ہو، جب اس کے دل میں     تو بہ کا خیال پیدا ہو تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ تمہاری تو بہ کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ وہ  (یہ کہہ کر) اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیتا ہے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ مایوسی کو دور کرکے امید رکھے اور اس بات کو یاد کرے کہ  اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے والا ہے اور بے شک    اللہ تعالیٰ کریم ہے جو بندوں کی تو بہ قبول کرتاہے، نیز تو بہ ایسی عبادت ہے جو گناہوں کو مٹادیتی ہے۔  اللہ    تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:   
’’   قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ   ‘‘   (   زمر:   ۵۳   ،   ۵۴   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان  : تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں     نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا،  بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔   
                  تو اس آیت میں  اللہ  تعالیٰ نے اپنی طرف رجوع    (یعنی توبہ) کرنے کا حکم دیا۔   
                  اور ارشاد فرمایا: ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى    ‘‘   (   طہ:   ۸۲   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان : اور بیشک میں  اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔   
                  تو جب تو بہ کے ساتھ مغفرت کی توقُّع ہوتو ایسا شخص امید کرنے والا ہے اور اگر گناہ پر اِصرار کے باوجود مغفرت کی تو قع ہو تو یہ شخص دھو کے میں     ہے جیسے ایک شخص بازار میں ہو اور اس پر جمعہ کی نماز کا وقت تنگ ہوجائے، اب اس کے دل میں خیال آئے کہ وہ نمازِ جمعہ کے لئے جائے لیکن شیطان اس سے کہتا ہے کہ تم جمعہ کی نماز نہیں پاسکتے لہٰذا یہاں  ہی ٹھہرو،لیکن وہ شیطان کو جھٹلا تے ہوئے دوڑ جاتا ہے اور اسے امید ہے کہ نمازِ جمعہ پالے گا تو یہ شخص امید رکھنے والا ہے اور اگر وہ شخص کاروبار میں مصروف رہے اور یہ امید رکھے کہ امام میرے یا کسی او ر کے لئے درمیانے وقت تک انتظار کرے گا یا کسی اور وجہ سے منتظر رہے گا جس کا اسے علم نہیں ہے تو یہ شخص دھو کے میں مبتلا ہے۔   (    احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ،    ۳    /    ۴۷۳   )   
                  اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور اپنی رحمت و مغفرت سے حقیقی امید رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔   
کسی حال میں  بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں :      
                  یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ ایک خاص چیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا گیا لیکن عمومی طور پر ہر حوالے سے       اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہونا منع ہے ،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ زندگی میں آنے والی پے در پے مصیبتوں ،مشکلوں اور دشواریوں  کی وجہ سے اللہ    تعالیٰ کی رحمت سے ہر گز مایوس اور نا امید نہ ہو کیونکہ یہ کافروں اور گمراہوں کا وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، چنانچہ سورہِ یوسف میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ       الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:   
’’   وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ   ‘‘   (   یوسف:   ۸۷   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان   : اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔   
                  اور حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ       وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے ارشادفرمات :   
’’   وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ   ‘‘   (   حجر:   ۵۶   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان : گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے؟   
                  اور کافر شخص کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :   
’’   لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ٘-وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَــٴُـوْسٌ قَنُوْطٌ   ‘‘   (   حٰم   ٓ    السجدۃ:   ۴۹   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان : آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں     اُکتاتا اور اگرکوئی برائی پہنچے تو بہت ناامید ،بڑا مایوس ہوجاتا ہے۔   
                  اورحضرت علی المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم  سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہوں میں  سب سے بڑا گنا ہ کون سا ہے؟آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم       نے فرمایا’’  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیرسے بے خوف اوراُس کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہونا۔   (    کنزالعمّال، کتاب الاذکار، قسم الافعال، فصل فی التفسیر، سورۃ النّسائ،    ۱    /    ۱۶۷   ، الجزء الثانی، الحدیث:    ۴۳۲۲   )   
                  اورحضرت  عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : دو باتوں میں ہلاکت ہے، (   1   )   مایوسی۔    (   2   )   خود پسندی۔   
                  امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ       فرماتے ہیں : آپ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان دو باتوں     کو جمع فرمایا کیونکہ سعادت کا حصول کوشش،طلب،محنت اور ارادے کے بغیر ناممکن ہے اور مایوس آدمی نہ کوشش کرتا ہے اور نہ ہی طلب کرتا ہے جبکہ خود پسند آدمی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ خوش بخت ہے اور اپنی مراد کے حصول میں     کامیاب ہو چکا ہے اس لئے وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔   (   احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ االکبر والعجب، الشطر الثانی من الکتاب فی العجب، بیان ذمّ العجب وآفاتہ،    ۳    /    ۴۵۲   )   
                  لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ کسی حال میں     بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اورمَصائب و آلام میں  اسی کی بارگاہ میں دست ِدعا دراز کرتا رہے کیونکہ    اللہ    تعالیٰ ہی حقیقی طور پر مشکلات کو دور کرنے والا اور آسانیاں عطا فرمانے والا ہے۔  اللہ  تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے مایوس اور ناامید ہو جانے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
  سورہ المومن آیت 3 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے  6 اَوصاف بیان فرمائے ہیں   ۔  چُنانچہ ارشادِ ہوتا ہے غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ۔
ترجمہ کنز الایمان: گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا سخت عذاب کرنے والا بڑے انعام والا اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی طرف پھرنا ہے ۔
( 1 )…وہ گناہ بخشنے والا ہے۔ جو مسلمان اپنے گناہوں   سے سچی توبہ کرتا ہے اس کے گناہوں   کی بخشش کا تو  اللہ  تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور وہ  اپنے وعدے کے خلاف نہیں   فرماتا البتہ توبہ کے بغیر بھی  اللہ  تعالیٰ جس مسلمان کے چاہے گناہ بخش دے ،اور یہ اس کا فضل و کرم اور احسان ہے ۔ مفسرین نے ’’ غَافِرْ ‘‘ کا ایک معنی  ساتِر  یعنی’’ چھپانے والا‘‘ بھی بیان کیا ہے۔ اس صورت میں    ’’ غَافِرِ الذَّنْۢبِ ‘‘     کا معنی یہ ہوگا کہ  اللہ  تعالیٰ ایمان والوں   کے صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں   اور خطاؤں   کو محض اپنے فضل سے دنیا میں چھپانے والا ہے اور قیامت کے دن بھی چھپائے گا ۔ 
( 2 )…وہ توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ جو کافر اپنے کفر سے اور جو مومن اپنے گناہوں   سے سچی توبہ  کرتا ہے تو  اللہ  تعالیٰ اپنے فضل سے ا س کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اگرچہ اس نے موت سے چند لمحے پہلے ہی توبہ کیوں   نہ کی ہو۔ 
( 3 )… سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ  تعالیٰ کافروں   کو ان کے کفر کی وجہ سے جہنم میں سخت عذاب دے گا، البتہ یاد  رہے کہ بعض گناہگار مسلمان بھی ایسے ہوں   گے جن کے گناہوں   کی بنا پر انہیں   جہنم کے عذاب میں   مبتلا کیا جائے گا ۔ 
( 4 )…بڑے انعام والاہے۔ جو لوگ  اللہ  تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں   انہیں اللہ تعالیٰ بڑے انعام عطا فرمانے والا ہے۔ 
( 5 )…اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس آیت میں   فضل و رحمت کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ صرف  اللہ  تعالیٰ کے ہیں ، اس کے علاوہ اور کسی کی ایسی صفات نہیں   ہیں   اور جب   اللہ  تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی ایسے وصف  نہیں   رکھتا تو اس کے علاوہ کوئی اور معبود بھی نہیں   ہے۔ 
( 6 )…اسی کی طرف پھرنا ہے ۔ جب قیامت کے دن لوگوں   کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو سبھی نے اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے کے لئے  اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے خواہ وہ خوشی سے جائے یا اسے جَبری طور پر لے کرجایا جائے۔ 
گناہوں   سے توبہ کرنے اور عملی حالت سدھارنے کی ترغیب: 
              جب  اللہ  تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ گناہوں   کو بخشنے والا بھی ہے اورکافروں اور گناہگاروں کی توبہ قبول فرمانے والا بھی ہے،سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور انعام و احسان فرمانے والا بھی ہے ،وہی اکیلا معبود ہے اور سبھی کو اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے کے لئے  اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں   حاضر ہونا بھی ہے، تو ہر کافر اور گناہگار مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے کفر اور گناہوں سے سچی توبہ کرے ،  اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے، اس کے عذاب سے ڈرتا اور اس سے پناہ مانگتارہے ، اس کے انعام اور احسان کو پانے کی کوشش کرے،صرف   اللہ  تعالیٰ کی ہی  عبادت کرے اور آخرت میں   ہونے والے حساب کی دنیا میں   ہی تیاری کرے۔انہی چیزوں   کی ترغیب اور حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر  اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:  ’’ وَ  الَّذِیْنَ  اِذَا  فَعَلُوْا  فَاحِشَةً  اَوْ  ظَلَمُوْۤا  اَنْفُسَهُمْ  ذَكَرُوا  اللّٰهَ  فَاسْتَغْفَرُوْا  لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ  مَنْ  یَّغْفِرُ  الذُّنُوْبَ  اِلَّا  اللّٰهُ  ﳑ  وَ  لَمْ  یُصِرُّوْا  عَلٰى  مَا  فَعَلُوْا  وَ  هُمْ  یَعْلَمُوْنَ( ۱۳۵) اُولٰٓىٕكَ  جَزَآؤُهُمْ  مَّغْفِرَةٌ  مِّنْ  رَّبِّهِمْ  وَ  جَنّٰتٌ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  نِعْمَ  اَجْرُ  الْعٰمِلِیْنَ ‘‘ ( اٰل عمران: ۱۳۵ ، ۱۳۶ ) 
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا  ارتکاب کرلیں   یا اپنی جانوں   پر ظلم کرلیں   تو  اللہ  کو یاد کرکے اپنے گناہوں   کی معافی مانگیں   اور  اللہ  کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں   جاری ہیں ۔  (یہ لوگ)  ہمیشہ ان  (جنتوں )  میں   رہیں   گے اور نیک اعمال کرنے والوں   کا کتنا اچھا بدلہ ہے۔ 
                اور ارشاد فرماتا ہے :  ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ( ۷۰)   یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا   ‘‘ ( احزاب: ۷۰ ، ۷۱ ) 
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو!  اللہ  سے ڈرو اور  سیدھی بات کہاکرو۔  اللہ  تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو   اللہ  اور اس کے  رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ 
                اللہ  تعالیٰ ہمیں   گناہوں   سے سچی توبہ کرنے اور اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔ 

سورہ المومن آیت 3 کے متعلق ایک واقعہ: 
                حضرت یزید بن اصم   رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   سے منقول ہے کہ ایک آدمی بڑاطاقتورتھااورشام کے لوگوں سے تعلق رکھتا تھا ۔ حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   نے اسے اپنے پاس نہ پایا تواس کے  بارے میں   پوچھا۔ عرض کی گئی: وہ تو  شراب کے نشے میں   دُھت ہے ۔حضرت عمرفاروق    رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   نے کاتب کوبلایا اوراس سے فرمایا:لکھو!عمربن خطاب  کی جانب سے فلاں   بن فلاں   کے نام، تم پرسلام ہو۔میں   تمہارے سامنے اس   اللہ  تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرتا  ہوں   جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔    ’’ غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ ‘‘   پھر آپ نے دعاکی اورجولوگ آپ کے پاس تھے انہوں   نے آمین کہی۔ انہوں   نے اس آدمی کے حق میں   یہ دعاکی کہ  اللہ  تعالیٰ اس پرنظر ِرحمت فرمائے اوراس کی توبہ قبول فرمائے۔ جب وہ خط اس آدمی تک پہنچا تووہ اسے پڑھنے لگا اور ساتھ  میں   یوں   کہتا   ’’ غَافِرِ الذَّنْۢبِ ‘‘   اللہ  تعالیٰ نے مجھ سے بخشش کاوعدہ کیاہے ۔   ’’ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ‘‘   اللہ  تعالیٰ نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا۔   ’’ ذِی الطَّوْلِ ‘‘   بہت زیادہ انعام فرمانے والاہے۔  ’’ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ ‘‘   وہ بار بار اسے اپنے اوپردہراتارہایہاں   تک کے رونے لگا،پھراس نے گناہوں   سے توبہ کی اوربہترین توبہ کی ۔جب حضرت عمر    رَضِیَ   اللہ تَعَالٰی عَنْہُ   تک اس کا معاملہ پہنچاتوآپ نے فرمایا:تم اسی طرح کیاکرو کہ جب تم کسی کو لغزش کی حالت میں دیکھو تو اسے درست ہونے کا موقع دو،نیز اللہ  تعالیٰ سے دعاکروکہ وہ توبہ کرلے اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔ (  درمنثور، غافر، تحت الآیۃ:  ۳ ،  ۷  /  ۲۷۰ - ۲۷۱ ) 
              اس سے ان لوگوں   کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کسی کے گناہ میں   مبتلا ہونے کے بارے میں   جاننے کے بعد اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں   جس سے وہ اپنے گناہوں   سے باز آنے کی بجائے اور زیادہ گناہوں   پر بے باک ہو جاتا ہے، انہیں   چاہئے کہ گناہگار سے نفرت نہ کریں   بلکہ اس کے گناہ سے نفرت کریں   اور ا سے اس طرح نصیحت کریں   جس سے اسے گناہ چھوڑ دینے اور نیک اعمال کرنے کی رغبت ملے ،وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور گناہوں   سے توبہ کرنے کی طرف مائل ہو اور پرہیزگار انسان بننے کی کوشش شروع کردے،نیز اس کی اصلاح اور توبہ کے بارے میں    اللہ  تعالیٰ سے دعا گو بھی رہے ، اللہ  تعالیٰ نے چاہا تو اسے گناہوں   سے توبہ اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ اللہ  تعالیٰ ہمیں   گناہگار مسلمانوں   کی احسن انداز میں   اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔ 
اللہ       تعالیٰ کے بارے میں  اچھا گمان رکھنا چاہئے :      
       رب العالمین قرآن کریم کی سورۃ حم السجدہ آیت 23 میں ارشاد فرماتا ہے وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ ترجمہ کنز الایمان: اور یہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیا تو اب رہ گئے ہارے ہوؤں میں ۔
    اللہ       تعالیٰ کے بارے میں  برا گمان رکھنا کافروں  کا طریقہ ہے اور برا گمان رکھنے والا ان لوگوں  میں  سے ہو گا جو ہلاک ہونے والے اور نقصان اٹھانے والے ہیں  ، برے گمان کی مثال یہ ہے کہ سچی توبہ کر کے بندہ یہ گمان کرے کہ  اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف نہیں  فرمائے گا،اپنی اولاد کو اس لئے قتل کر دے کہ پتا نہیں ،       اللہ       تعالیٰ اسے رزق دیتا ہے یا نہیں  اوردعا کرنے کے بعد یہ گمان کرنا کہ  اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا بھی ہے یا نہیں  وغیرہ۔ اچھے گمان کی مثال یہ ہے کہ سچی توبہ کے بعد یہ گمان کرناکہ اللہ  تعالیٰ اسے قبول فرما لے گا اور ا س کے گناہ بخش دے گا، رزق کے اسباب اختیار کرنے کے بعد یہ گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے رزق عطا فرمائے گا اوردعا کرنے کے بعد ا س کی قبولیت کی امید رکھنا وغیرہ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے بارے میں  برا گمان رکھنے سے بچے اور اچھا گمان رکھے ،ترغیب کے لئے یہا  اللہ  تعالیٰ کے ساتھ برا اور اچھا گمان رکھنے کے بارے میں  4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،      
(1)…      حضرت عبداللہ بن عمر  رضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا       سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اللہ  تعالیٰ کے ساتھ برا گمان رکھنابڑے کبیرہ گناہوں  میں  سے ہے۔(       مسند الفردوس، باب الالف،       ۱ / ۳۶۴      ، الحدیث:       ۱۴۶۹      ) (یہ برے گمان کی خاص اَقسام کے اعتبار سے ہے۔)      
(2)…       حضرت جابر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے کسی شخص کو ہر گز موت نہ آئے مگر اس حال میں  کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔(       مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الامر بحسن الظنّ باللّٰہ تعالی عند الموت، ص      ۱۵۳۸      ، الحدیث:       ۸۱             (۲۸۷۷)      )      
(3)…      حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ       نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک  اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ایک اچھی عبادت ہے ۔(       ترمذی، احادیث شتّی،       ۱۳۶-      باب،       ۵ / ۳۴۸      ، الحدیث:       ۳۶۲۰      )      
(4)…      ایک روایت میں  ہے کہ حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  حضرت یزید بن اسود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ       کی عیادت کے لیے تشریف لائے اوران سے پوچھا:تمہارا       اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیاگمان ہے ؟انہوں نے کہا:جب میں  اپنے گناہوں  کو دیکھتاہوں  تومجھے اپنی ہلاکت قریب نظرآتی ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتاہوں  ۔حضرت واثلہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  نے کہا:       اللہ اَکْبَر  اور گھروالوں  نے بھی کہا، اللہ اَکْبَر      ۔ حضرت واثلہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا:میں  نے       رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سناہے کہ       اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے’’ میں  اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں  وہ میرے متعلق جوچاہے گمان کرے۔(      شعب الایمان، الثانی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،       ۲ / ۶      ، الحدیث:       ۱۰۰۶      )      
                  اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنے ساتھ برا گمان رکھنے سے بچنے اور اچھا گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔      
امید اور خوف کے درمیان رہنے میں  ہی سلامتی ہے:      
            یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ بندہ  اللہ       تعالیٰ کے عذاب سے ہی بے خوف ہو جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکل مایوس ہو جائے اور نہ ہی اس کے عذاب اور اس کی سزا سے بے خوف ہو جائے بلکہ اسے چاہئے کہ امید اور خوف کے درمیان رہے کہ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔       اللہ       تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جانے والوں  کے بارے میں  قرآنِ مجید میں  ہے :      
’’      اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ      ‘‘      (      سورہِ یوسف:      ۸۷      )      
ترجمہ کنزُالعِرفان : بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔      
            اور اللہ  تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو جانے والوں  کے بارے میں  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:      
’’       اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ      ‘‘      (      اعراف:      ۹۹      )      
ترجمہ کنزُالعِرفان : کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں  تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے ہیں ۔      
                  اللہ تعالیٰ ہمیں  اپنی رحمت سے امید رکھنے اور اپنے عذاب سے خوفزدہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔